ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
گناہ سے اپنے کو بچانا یہ نہیں ہوسکتا ۔ حالانکہ یہ اس سے سہل ہے ۔ بات یہ ہے کہ قصد ہی نہیں گناہ کے چھوڑنے کا ( اس کے بعد نگاہ کرنے کے متعلق فرمایا ) کہ اگر آدمی نیچی نگاہ کرلے تو کیا کوئی زبردستی اونچی کردیگا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نفس میں تقاضا ہوتا ہے کہ نگاہ اٹھائیں مگر یہ تو کرسکتا ہے کہ اس پر عمل نہ کرے ۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی کہے کہ نگاہ کا بچانا قدرت میں نہیں تو بالکل غلط ہے اگر کوئی حاکم ماپیر ہو جسے یہ بڑا سمجھتا ہو اور وہ سامنے ہوتو کیا ممکن ہے کہ اس کے دیکھتے ہوئے اس شخص کی نگاہ اوپر کو اٹھ سکے ۔ ایک صاحب یہاں آئے تھے وہ بھی اس پر مصر تھے کہ نگاہ بچانا قدرت میں نہیں ۔ میں کہتا تھا کہ ذرا سوچئے ۔ اس کے بعد ان کا خط آیا تھا کہ واقعی میری غلطی تھی کہ میں قدرت سے خارج سمجھتا تھا موٹی سی بات ہے ۔ صاحب علم اس کے اختیاری ہونے کو اتنی بات سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر قدرت نہ ہوتی تو قرآن شریف میں یہ حکم کیوں ہوتا قل للمومنین یغضوا من ابصارھم کیونکہ ارشاد ہے لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا ۔ تو کیا یہ کلام کاذب ہے پھر حضرت نے افسوس سے فرمایا ۔ بس جی لوگ یوں چایتے ہیں کہ مزہ میں بھی خلل نہ ہو اور کام بھی بن جائے ( اس کے بعد فرمایا ) مجاہدہ خلاف نفس کرنے کو کہتے ہیں اور یہ ( نگاہ نہ کرنا خیال نہ لانا ) ہر وقت کا مجاہدہ ہے اس لئے اس سے دم نکلتا ہے ۔ ہاں سوؤ مت کھاؤ مت اس کے کرنے کو تیار ہیں ۔ مگر گناہ نہیں چھوڑا جاتا ہے فقط ۔ واقعہ : ایک صاحب کی عادت تھی کہ دوسروں کے واقعات کی تحقیق حضرت سے کیا کرتے اور ان کے واقعات کی تفشیش کرتے اور دوسروں کے دریافت کئے ہوئے مسائل کا اعادہ کراتے ۔ دوسرے یہ عادت تھی کہ دو شخص باتیں کرتے ہوں تو اس طرف کان لگاتے ۔ انہوں نے کسی شخص کا واقعہ پوچھا اس پر فرمایا ۔ ارشاد : آپ کے اندر مادہ ہے کہ دسروں کے واقعات کی تحقیق مجھ سے کرتے ہیں یہ مضر ہے فعل عبث ہے ۔ ایک بات یہ بھی میں دیکھتا ہوں کہ دو آدمی بات کرتے ہوں تو آپ سنتے ہیں یہ شرعا بھی ممنوع ہے اور اخلاقا بھی اس سے تو تغافل چاہئے اور دوسروں کے واقعات کی تحقیق کرنا اور فکر میں پڑنا اس طرح کہ اگر نہ معلوم ہوتو اس کی تفشیش میں رہیں سخت بے ہودہ حرکت ہے آپ