ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
سنا کر بولو نہیں تب امید ہوگی کہ سوال کرنے کے قابل ہوگئے ۔ اس کے بعد حضرت نے کاتب خط کی نسبت حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا ۔ میں نے جوان کو ڈانٹا ہے انشاءاللہ تعالٰی اس سے ان کے مرض کا ازالہ ہو جائیگا ان کی آنکھیں کھل جایئں گی مجھ کو اور کچھ مقصود نہیں صرف اصلاح مقصود ہے لوگ تجویز کرتے ہیں کہ نرمی کرنی چاہئے ۔ مگر ٹٹول کر دیکھنا چاہئے کہ نرمی سے یہ کام ہوسکتا ہے نرمی سے تو صرف اطلاع ہی ہوتی یا تھوڑا ہی رہتا ۔ حضرت میرے پاس مرد وعورت دونوں کا خط آتا ہے تو میں اپنے نفس کے اندر دونوں میں تفاوت پاتاہوں خط میں ( اس کے بعد کاتب خط کی نسبت فرمایا ) کہ انہوں نے جو اس کی عمر لکھی ہے اس عمر کے لکھنے میں حظ شیطانی ہے ۔ عمر لکھنے کی کیا ضرورت تھی ۔ بس عمر کے لکھنے میں نفس کو مزہ آیا 12 ، 17 برس کے لکھنے کا کیوں تقاضا ہو حظ نفس اس کا مقتضی ہو ۔ بڑی بڑی شرارتیں ہیں نفس کی ۔ میں چونکہ خود مبتلا ہوں اس لئے مجھے احساس ہوتا ہے دوسروں کی حالت کا ۔ ممکن ہے کہ خود گنجا ہونے کی وجہ سے دوسروں کو بھی گنجا سمجھوں ۔ ہاں مجھ میں اوروں میں یہ فرق ضروو ہے کہ میں تاویل نہیں کرتا استغفار کرتا ہوں یہ تو انسان کا طبعی میلان ہے اگر اتنا میلان نہ ہوتا تو شریعت اس قدر انتظام کیوں کرتی ۔ حضرت ہر وقت نفس کی فکر میں رہنا چاہئے ۔ کسی وقت بھی اس سے غافل نہ رہنا چاہئے اگر اور کچھ نہ ہوسکے تو یوں تو کہتے رہو کہ اے اللہ تعالٰی ہمارے اندر یہ مرض ہے ۔ آپ اس کی اصلاح کر دیجئے رحمت فرمائے اس کا ازالہ کیجئے ۔ ایک یہ ہونا چاہئے کہ جب ایسا خیال ہوتو اس کا دفع کرے دوسری طرف مشغول ہونے سے دفع ہوجاتا ہے یہ تو میلان کا علاج ہے ۔ اور ایک ہے قصدا ابقا ۔ اس کے تدبیر یہ ہے کہ جب ایسا ہوتو ایک وقت فاقہ کرے اور نفس سے کہہ دے کہ جب تم ایسا کرو گے تو ہم ایسا کریں گے مگر یہ ایسی باتیں ہیں کہ ساری عمر ہونی چاہئیں اس سے فارغ نہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ اصل میں طبعی امور ہیں اگر مجاہدہ ریاضت سے چلے بھی جاتے ہیں تو پھر لوٹتے ہیں مبتدی اور منتہی دونوں کو پیش آتے ہیں اتنا فرق ہے کہ منتہی مزاحمت کو جلدی دفع کرسکتا ہے ۔ اور مبتدی کو سخت دقت اٹھانی پڑتی ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک تو شائستہ گھوڑا ہو کہ اگر وہ شوخی کرے تو ذرا سے اشارہ میں درستی کا کام چل جاتا ہے ۔ اور ایک گھوڑا ہو غیر شائستہ کہ اس کے موڑ نے میں سخت دقت ہوتی ہے ۔ اور یہ بات تو بڑھاپے تک بھی نہیں جاتی ۔ ایک دفعہ کانپور میں عورتوں میں یہ ذکر ہورہا تھا کہ فلاں بزرگ سے بھی پردہ ہے یا نہیں