ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
جائے اور رات کو کھایا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ حضرت صورت یہ بھی تھی مگر میں نے بعض مصالح سے اسی کو اختیار کر رکھا ہے اور شیخ بوعلی سینا نے بھی اس کی تعریف کی ہے ۔ ارشاد : شیخ کا قول بلا تحقیق نہیں ہوگا مگر حدیث کی ایک روایت ہے غالبا ابن ماجہ میں ہے ۔ اگرچہ بعض روایات اس کی ایسی ہی ہیں لا تترک العشاء فان ترک العشامھرمتھ مگر یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ حدیث کو مقید کریں بعض امنرجہ کے ساتھ یعنی اہل عرب کے ساتھ مخصوص کہا جائے اور یہ امر بطور مشورہ کے ہے بطور حکم نہیں ۔ پھر فرمایا کہ بعض حضرات ایسے قوی یقین والے ہوتے ہیں کہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہیں ۔ خواہ دوسرے اہل فن اس میں تاویل کرتے ہوں ۔ چنانچہ ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے ان کو بخار آیا علاج کیا مگر اس سے نفع نہ ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ اطباء یونانی کا ظاہری علاج تو کیا اب طبیب رحانی کا بتلایا ہوا علاج کروں گا ۔ وہ یہ کہ حدیث میں بخار کا علاج نہر میں خاص طریقے سے غسل کرنا آیا ہے ۔ اگرچہ اطباء نے اس کو مقید کیا ہے غیر مادی کے ساتھ مگر انہوں نے بہ ترکیب مزکورہ حدیث ، غسل کیا وہ کہتے تھے کہ اس کے بعد مجھ کو اتنے برس بخار ہی نہیں آیا ۔ لوگوں نے کہا بھی کہ طب کے خلاف کرتے ہیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور غسل ہی کیا حالانکہ خود بھی طبیب تھے ۔ باقی رہا اطباء کا تاویل کرنا سو یہ کوئی ملامت کی بات نہیں ۔ تطبیق کی بہت سی صورتیں ہیں اجتہاد میں گنجائس ہے انہوں نے حدیث کی تاویل اسی طرح سے کی ہے دوسرے اور طریقہ سے کی ہے ۔ کسی پر ملامت نہیں اور نفع بھی کامل الیقین ہی کو ہوتا ہے اور جو ایسا نہ ہو اس کے حق میں تاویل ہی مناسب ہے ۔ اسی طرح حدیث میں جو آیا ہے کہ لاعددیٰ کہ مرض متعدی نہیں اس میں بھی اسلم طریقہ یہی ہے کہ اس کو ماول کہا جائے ضعفاء کے حق میں یہی مناسب ہے ، ورنہ اگر ایسی صورت ہو کہ گھر میں یہ محلہ میں کسی کو کوئی مرض وبائی لاحق ہو ۔ جیسے طاعون اور پھر دوسروں کو بھی ہوجائے جیسا کہ ہوا بھی ہے تو اس وقت ظاہر حدیث پر اعتقاد رکھنا بڑاہی مشکل ہے اور سوائے قوی القلب کے دوسرے کاکام نہیں ۔ عوام تو حدیث میں شبہ کرنے لگتے ہیں اور اہل ادب اپنے اندر نقص سمجھتے ہیں نچانچہ بزرگان پیشین نے حدیث کے ادب کو ایسا ملحوظ رکھا ہے کہ خواجہ حضرت بہاؤالدین نقشبندی کا قصہ ہے کہ آپ نے ایک روز فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیھ وسلم ہر روز جو کی روٹی تناول فرماتے تھے اور وہ بھی اسی طرح کہ غلبہ کو پیس لیا اور پھونک سے بھوسی اڑادی کوئی باقاعدہ آٹا چھاننے کا التزام نہ