ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
یہ ہے اور اس کے بعد وظیفے بھی ہوں تو مضائقہ نہیں ہے ۔ اس صورت میں وہ وظیفے معین ہوجاتے ہیں ۔ طریق میں سیدھی چال تو یہ ہے اور آجکل یہ چال اختیار کی گئی ہے کہ وظیفے ہی وظیفے ہیں ۔ نہ علم ہے نہ عمل ہے ۔ سو اس سے کیا ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کو کوئی مادی مرض ہے اس کا باقاعدہ علاج تو سہل ہے لیکن وہ عقلمند مسہل نہیں پیتا ۔ اور بجائے مسہل کے عرق بادیاں سے کام نکالنا چاہتا ہے جو مسہل کی مدد میں پیا جایا کرتا ہے تو کیا عرق بادیاں سے مسہل کا کام نکل سکتا ہے ۔ سیدھی چال یہ ہے کہ مسہل لیا جائے اسی سے مرض کو شفا ہوگی نہ کہ عرق بادیاں سے ہاں مسہل کے ساتھ مدد کے عرق بادیاں بھی پیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ اس صورت میں عرق بادیاں سے نفع ہوگا کہ مدد پہنچے گی ۔ اور مسہل کا عمل اچھا ہوگا ۔ اس مثال سے میرے بیان کی بالکل تو ضیح ہوگئی ۔ اب میں پھر اس کو دہراتا ہوں کہ زیادہ نظر ان تین باتوں کی طرف رکھی جائے ۔ اور اس کے ساتھ کچھ ذکر بھی ہو معین ہوجاتا ہے طریق میں اور جلدی ترقی ہوجاتی ہے ۔ چوہدری صاحب نے عرض کیا ذکر ہونا چاہئے ۔ فرمایا سب سے زیادہ مفید اور قلب کو نورانی کرنے والا ،، لاالہ الااللہ ،، ہے ۔ جس قدر بھی ہو ہزار ۔ دوہزار پانچ سو چار سو ، دوسو ، سو ہی کے دفعہ سہی اس سے بڑھ کر کوئی ذکر نہیں اس کی ترکیبیں دو ہیں ۔ ایک یہ کوئی وقت معین کرکے کوئی تعداد اس ذکر کی مقرر کرلی جائے ۔ جو وقت بھی فرصت کا ہو دن میں یا رات میں اگر ممکن ہو تو عشاء کے بعد کچھ نفلیں پڑھ کر مثلا چار ہی رکعت سہی ذکر الاالہ الا اللہ کیا جائے ۔ اور تعداد کم سے پانچ سو بار ہو ۔ اور کبھی کبھی اس کے ساتھ ،، محمد رسول اللہ ،، ﷺ بھی ملا لیا جائے اور تیسرے چوتھے دن اس کی ایک ایک تسبیح بڑھائی جایا کرے حتی کہ بارہ سو تک پہنچ جائے ۔ چوھدری صاحب نے عرض کیا عشاء کے بعد کیا ضرورت ہے تہجد کے وقت ہی کیوں نہ ہو جو اصل وقت ہے نفلوں کا ۔ فرمایا ہاں اگر تہجد کی عادت ہوتو اسی وقت ذکر کیا جائے مگر دوام چاہیے دوام بڑی چیز ہے ۔ عمل چاہے قلیل ہی ہو مگر دوام ہو تو اس میں بڑی برکت ہوجاتی ہے ایک ترکیب تو ذکر کی یہ ہوئی ۔ اور دوسری ترکیب یہ ہوئی کہ ہروقت زبان سے آہستہ آہستہ اسی کی کثرت رہے ۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے برابر اسکو ورد زبان رکھا جائے ۔ اور ایک ضرورت ہے اس بات کی کہ وقتا