ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
وعظ کو بالقصد خواجہ صاحب نے قلمبند کیا ۔ بعد ختم حافظ لقاءاللہ صاحب نے عرض کیا کیسا اچھا وعظ ہوا ۔ اس وعظ سے اپنے مشائخ بھی تو خؤش ہوتے ہوں گے ۔ فرمایا ہاں ہوتے ہوں گے اور غیر سلسلہ کے مشائخ بھی خوش ہوتے ہوں گے ۔ عرض کیا مثلا یہ وعظ قلندر صاحب کی درگاہ میا ہوا ہے ۔ تو کیا قلندر صاحب کو اس وقت مسرت ہوئی ہوگی فرمایا وہ تو بہت ہی قرب ہیں ۔ یہاں تک تو آواز بھی پہنچتی ہوگی ( حضرت والا کے ملفوظات میں ہے مسئلہ سماع موتی عموما تو مختلف فیہ ہے ۔ لیکن اہل کشف کا اتفاق ہے ۔ اس پر کہ اہل اللہ قبر میں سنتے ہیں ۔ راقم محمد مصطفٰی پھر فرمایا پانی پت میں دو وعظ ہوئے ( اندازہ یہی تھا کہ صرف دو وعظ ہوں گے مگر خوش قسمی سے پانی پت میں پانچ وعظ ہوئے ۔ ایک مخدوم صاحب کی درگاہ میں جس کانام ،، جمال الجلال ، ، تھا ۔ اور ایک آج قلندر صاحب کی درگاہ میں ہوا ۔ میں اس کا ثواب ان صاحب مزار اور اس کا ثواب ان صاحب مزار کو بخشاہوں فجر کی نماز میں حضرت والا نے سواۃانافحنا پوری اور سورۃ نباء پڑھی ۔ سوال : پانی پت کے کمیلوں ( کمبل بافون ) نے اپنی برادری میں پنچایت کرکے مسجد کیلئے چندہ کی ایک صورت یہ نکالی ہے کہ فی کمبل ایک پیسہ لیا جائے اور وہ وصول کیا جاتا ہے کہ جب کسی کے یہاں کمبل بکے تو محصل چندہ مسجد کی صندوقچی لئے ہوئے موجود ہوا اور فی کمبل حساب کرکے بائع سے وصول کرے لیکن اس میں جبر نہیں کیا جاتا ۔ حتٰی کہ اگر کوئی بالکل نہ دے تو اس پر کسی قسم کی ملامت بھی نہیں کی جاتی ۔ فرمایا یہ صورت بھی جبر کی ہے یوں چاہئے کہ مشتری یا محصل کوئی اپنی زبانی سے کچھ نہ کہے جس کو دینا ہو وہ خود ڈالدے کیونکہ مانگنے سے گو اس میں یہ تصریح بھی کردی جائے کہ جبر نہیں ہے تاہم یہ اثر ضرور ہوتا ہے کہ بعض طبیعتیں شرما جاتی ہیں اور انکار نہیں کرسکی ۔ حلانکہ رضاقلبی نہیں ہوتی یہی جبر ہے ۔ لوگوں نے کہا بجائے اس کے پرانا طریقہ اچھا تھا جس کو مولانا عبدالسلام صاحب مرحوم نے جاری کیا تھا ۔ وہ یہ صندوققچیاں گھر گھر میں رکھوادی تھیں کہ جو کوئی کمبل بیچ کر دام لادے وہ خود فی کمبل ایک پیسہ کے حساب سے اس صندوقچی میں ڈال دیا کرے حضرت والا نے پوچھا پھر یہ طریقہ کیوں چھوڑدیا ۔ عرض کیا گیا کہ یہ اس واسطے رتک کیا گیا کہ وہ صندوقچیاں لائی جاتی تھیں اور کھولی جاتی تھیں تو ہر ہر شخص کا راز کھلتا تھا کہ اس کے یہاں کتنے کمبل بکے اور اس