ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
اور نہ رات کی قید ہے ۔ کسی وقت مثلا ظہر کے وقت دورکعت نفل پڑھ کر دعاء مسنون پڑھے ۔ اور تھوڑی دیر قلب کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھے ۔ ایک دن میں چاہے کتنی ہی بار استخارہ کرے ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا ۔ استخارہ بھی ہوگا اور حضرت دعا کردیں کہ ارادہ سفر ہی کا ہوجائے ۔ اور تر ددات اور موانع رفع ہوجائیں ۔ فرمایا جبکہ دونوں جانب کے مقضیات موجود ہیں ۔ اور دونوں طرف نفع وضرر کا احتمال ہے تو ایک جانب کو متعین کرلینا کیا معنی ۔ اس دعا میں کیا حرج ہے کہ اللہ جو بہتر ہو اس کا حاصل تو یہی ہے کہ جو بہتر ہو اس کی توفیق دیجئے اور اس میں یہ لفظ ہے ،، ثم رضنی بھ ،، یعنی قلب کو اس امر خیر کے ساتھ سکون بھی دیجئے ۔ پھر فرمایا یہ ایک خفی بے ادبی ہے حضرت حق جل وعلا کے ساتھ کہ استخارہ سے گبھراتے ہیں ۔ حقیقت اس کی یہ ہے کہ اطمینان نہیں ہے کہ حق تعالٰی جو کریں گے وہ خیر ہی ہوگا ۔ بس اپنے ذہن میں جس جانب کو خیر قرار دے لیا اسی کو خیر سمجھتے ہیں ۔ تب ہی تو تردید کے لفظ کو نہیں اختیار کرتے ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا ،، درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست ،، ساتھ رہنے اور ملفوظات ومواعظ ضبط کرنے میں جانب شر کا احتمال ہی کہاں ہے ۔ یہ تو خیر ہی خیر ہے ۔ ہمیں کوئی پہلو شر کا نہیں معلوم ہوتا ۔ پھر تردید کیسے کی جائے ۔ فرمایا یہ خوب کہی ہر کام مستلزم خیر وشرکت ہے اس میں ایک جانب آپ نے متعین کیسے کرلی ۔ دیکھئے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے باوجود اس کام میں رضا نبوی ہونے کے جس کے خیر ہونے میں کچھ شبہ ہی نہیں ہوسکتا ۔ عرض کیا ،، لا حتٰی استشیر ربی ،، یعنی میں ابھی کچھ نہیں کہتی جب تک کہ اپنے رب سے استشارہ نہ کرلوں ۔ اور استخارہ کیا فرمائیے ۔ یہ کیا موقع استخارہ کا تھا ۔ بات یہ ہے کہ ہر کام میں احتمال خیر وشر کا ہوسکتا ہے ۔ حتٰی کہ ایسا صریح نیک کام بھی مستلزم شر ہوسکتا ہے ۔ اس طرح کہ مثلا نکاح کے حقوق ادا نہ ہوں ۔ خدمت اطاعت میں کمی ہوتو یہ نکاح اور