ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
باعث وبال ہو ۔ اس واسطے حضرت زینب نے استخارہ کی ضرورت سمجھی ۔ عرض کیا دعا میں تو مسنون یہی ہے کہ جو مانگنا ہو جزم کے ساتھ مانگے نہ کہ تردید کے ساتھ ۔ فرمایا یہ ہر دعا میں نہیں ہے ۔ کہیں جزم چاہئے اور کہیں تردید اس میں قول فیصل یہی کہ جس امر میں تردد ہو ۔ اور قرائن کسی ایک شخص راجح نہ ہوں تو دعا تردید کے ساتھ چاہئے ۔ اور اگر قرائن سے کسی ایک شق کا خیر ہونا راحج ہوجائے یا شر ہونا تو دعا بلا تر دید چاہئے ۔ دیکھئے مرض کے لئے دعاء صحت کی مانگی جاتی ہے ۔ لیکن اس میں ذراسی تفصیل ہے وہ یہ کہ فرض کیجئے کہ ایک شخص مررہا ہے تو ظاہر یہ ہے کہ زندہ رہنا اچھا ہے ۔ کیونکہ وہ اعمال صالحہ کرے گا خلق اللہ کو اس سے فائدہ پہنچے گا ۔ یہ قرائن مرجح ہیں صحت کے اس واسطے اس کی صحت کی دعا مانگیں گے ۔ اور اگر ایک شخص ہے کہ اس سے فائدہ بھی پہنچتا ہے اور ظلم بھی کرتا ہے تو اس صورت میں دعا تردید کے ساتھ مانگیں گے ۔ مثلا یوں کہیں گے کہ اے اللہ اگر اس کے لئے اور مخلوق کے لئے اس کا زندہ رہنا اچھا ہوتو اس کو صحت دے دیجئے ۔ ورنہ موت دے دیجئے ۔ اس تفصیل سے تطبیق ہوجاتی ہے نصوص میں اور یہی محل ہے اس کا کہ شریعت میں ایک جگہ تو حاکم ہے ۔ لا یقل احد کم اللھم اغفرلی ان شئت وارحمنی ان شئت اس میں تردد ہو اس میں دعا تردید کے ساتھ مانگے ۔ ہر دعا میں جزم بعض دعا میں تردید کی بھی اجازت نہیں بلکہ اس سے ممانعت ہے ۔ دیکھو حق تعالٰی نے حضرت نوح علیہ السلام کو قوم کے لئے دعا کرنے سے منع فرمادیا کہ ۔ ولا تخاطبنی فی الذین ظلمو انھم مغرقون ۔ یہاں اس کی بھی گنجائش نہ تھی کہ یوں دعا کی جاتی کہ یا اللہ اگر آپ چاہیں تو ان کو بخش دیجئے ۔ پھر فرمایا حضرت والا نے کہ حق تعالٰی کے ساتھ معاملہ بہت باریک بات ہے ۔ بڑی احتیاط کی ضرورت ہے کیا منہ ہے کسی کا کہ حق تعالٰی کے کاموں میں دخل اندازی کرے ۔ ( محمد مصطفٰی راقم ملفوظات کہتا ہے کہ استخارہ کے متعلق اسی سفر میں میں دو ملفوظات اور ہوئے ہیں ۔ ایک پانی پت میں اور ایک گور کھپور میں نقل کیا جائے گا ۔ تاکہ استخارہ کا بیان جامع ہوجائے ۔