ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
لئے کتنا وقت ہے ۔ ارشاد : آفتاب اتنا روشن ہوجائے جس پر نگاہ کرنے سے نگاہ خبر ہوجائے ۔ واقعہ : ایک صاحب نے دریافت کیا کہ غیبت کہاں جائز ہے اور کہاں ناجائز ؟ ارشاد : غیبت اصل میں جہاں مصلحت شرعی نہ ہو نا جائز اور جہاں مصلحت شرعی ہو جائز ہے ۔ مثلا کوئی شخص کسی کو نوکر رکھنا چاہتا ہے اور ہے وہ چور اور آقا کو خبر نہیں ۔ اور ایک شخص کو اس کا حال معلوم ہے تو اس کو مطلع کردینا ایسے عیوب پر جائز ہے البتہ غیبت کر کے اپنے غصہ کا فرد کرنا یہ برا اور بعض اوقات مقصود تو ہوتا ہے شفائے غیظ مگر تاویل سے کوئی دوسری غیبت کرنے کے لئے نکالی جاتی ہے اور یہ قسم غیبت ہی نہیں سمجھتے اور فساق برا جانتے ہیں ۔ امام غزالی نے غیبت کی پوری تفصیل کی ہے ۔ یہاں تک لکھا ہے کہ کسی کے مکان کو کپڑے وغیرہ کو برا کہنا بھی غیبت میں داخل ہے ۔ اور کافر کی برائی جو کفر کے متعلق ہو وہ تو جائز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ جائز نہیں اور اپنے اس بیان پر ان کی پاس دلائل ہیں ۔ ارشاد : ایک زمانہ میں کسی شخص نے حضرت مولانا گنگوہی سے یا شیخ عبدالقادر شئیا اللہ کے بارہ میں استفتاء طلب کیا اور ایسے قیود سوال میں لکھیں کہ مولانا کو جواز کا فتویٰٰ دینا پڑا ۔ اس فتوٰٰی پر بعض خواص بھی بدظن ہوگئے ۔ بعض علماء سے سنا کہ حضرت پر تعجب کرتے تھے ۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ تو دیکھنا تھا کہ سوال کیا ہے ایک خان صاحب کو جو اپنی جماعت میں ہیں فتوٰی دیکھ کر غصہ آیا اور خط لکھا کہ جب آپ جیسے مقتداؤں کی یہ اجازت ہوگی عوام الناس کی کیا حالت ہوگی اور ڈاک میں خط ڈال دیا ۔ اب ڈالنے کے بعد ہوش آیا ۔ اور سمجھے کہ بڑی بے ادبی ہوئی کہتے تھے کہ میرے ہوش اڑ گئے کہ یا اللہ کیا کروں سمجھ نہیں آتا ۔ دوسرا خط اور بھیجا کہ میں کسی حال میں تھا گستاخی سے خط لکھا گیا ہے ۔میرا کیا منہ ہے اکابر پر اعتراض کرنے کا خدا کے لئے معاف فرمادیجئے پہلے خط جواب نہ آیا ۔ دوسرے خط کا جواب آیا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ کہ جیسی پہلے خط سے مسرت ہوئی تھی دوسرے خط سے نہیں ہوئی کیونکہ مجھے پہلے معلوم ہوا کہ میرے احباب میں ایسے ہیں جو متنبہ کرنے والے ہیں یہ حضرات ایسے حق گو ہیں ۔ یہ ہے شان بزرگوں کی ۔ اب تو یہ بات دیکھتے ہیں کہ کون کتنی تعظیم کرتا ہے ۔ حالانکہ محبت اور خیر خواہی کی تو یہ بات ہے کہ جو اس قصہ میں معلوم ہوئی ہے ۔