ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
روپیہ تنخواہ دیتے ہیں ۔ میں اس وجہ سے نہیں گیا کہ ان کے یہاں نوٹ میں بٹہ کے لینے دینے کا دستور ہے اور ہنڈوی آتی جاتی ہیں ۔ ان میں سود کا حساب کتاب لکھنا پڑتا ہے اب وہ پھر بلارہے ہے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ ہم نے دونوں باتیں ترک کردی ہیں مگر میرا جی نہیں چاہتا ترک اسباب ہی مرغوب معلوم ہوتا ہے آئندہ جیسے حضور کی رائے ہو مجھے مطلع فرما دیں ۔ ارشاد : گھر والے بھی آپ کے آپ کی رائے ترک اسباب سے موافق اور خوش ہیں یا نہیں (منشی صاحب ) گھر والے خوش نہیں ہیں (حضرت والا ) گھر والوں کو خوش کرنے کے لئے کر لیجئے ۔ اور اگر گھر والے بھی بالفرض خوش ہوں تب بھی دوستوں کو خوش کرنے کو ملازمت کر لیجئے میں تو دہلی کی نوکری سن کر بہت خوش ہوا ۔ اور یہ منجانب اللہ ہے آپ کی خواہش تو ہے بھی نہیں واقعہ : حضرت والا کے ایک ملازم نے اپنے والدین کو چند باتیں سخت کہی تھی حضرت نے اس کے والد کو معہ اس کے بلا کر اس کو معافی چاہیے کو کہا ۔ اس نے معافی چاہی اور والدہ کے پاس بھی بھیجا کہ معافی چاہو چنانچہ وہ گیا اور معافی چاہی ۔ ارشاد : اگر والدین سے کسی وقت تکلیف بھی پہنچے تو اٹھاؤ ۔ انہوں نے تمہارے لئے کتنی تکالیف اٹھائی ہیں ۔ جو بات تم کہنا چاہتے تھے وہ دوسرے طریقہ سے کہ دیتے بھائی اعتراض واستغناء کے طور پر کہنا ٹھیک نہیں صاف گو ہونا اچھا ۔ مگر صاف گونہ چاہئے ۔ میں شفقت سے کہتا ہوں ان کے سامنے ہاتھ جوڑو ۔ ماں سے بھی معاف کراؤ اس نے باپ سے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی میں معافی چاہتا ہوں میں کبھی ایسا نہ کروں گا اور حضرت سے کہا کہ آپ جب چاہیں آئندہ تحقیق کرلیا کریں ۔ پھر حضرت نے حاضرین سے کہا کہ اس کا لہجہ ہی کچھ ایسا ہے جس سے بدخلقی معلوم ہوتی ہے ۔ ارشاد: جب مدرسہ کی ابتدا ہوئی تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں انگریزی بھی ہونی چاہیے ۔ میں نے مصالح مدرسہ کے خلاف ہونے کے سبب سے منع کیا تو بعض لوگوں نے اس پر کہا کہ جب معاش اس پر موقوف ہے تو کیا کریں یہاں ایک شیعی تھے قصبہ کے بخشی وہ بولے کہ کیوں صاحبو اگر کوئی ایسا قانون ہوجائے کہ نوکری ملے گی کہ نصرانی بنو تو کیا آپ کو یہ بھی گوارہ ہوگا سب لوگ اس کو سن کر چپ ہوگئے اور بخشی صاحب نے کہا کہ اگر کوئی امر شرعا ممنوع ہے تو بلکل یہی مثال ہے ۔ واقعہ : ایک صاحب نے دریافت کیا کہ مطلوع کے وقت جو نماز پڑھنا منع ہے تو اس کے