ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
محمد قاسم صاحب کا قول سنا ہے ۔ یوں فرماتے تھے کہ میں حضرت حاجی صاحب کا معتقد ہوا ہوں تو علم کی وجہ سے ہوا ہوں کیونکہ علم الفاظ کا نام نہیں حضرت کے علم کا ایک واقعہ ہے کہ ایک بار حضرت مولانا شیخ محمد صاحب نے حضرت حاجی صاحب سے ذکر فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ایک چلہ ترک حیوانات کے ساتھ کروں تو حضرت نے فرمایا کہ مولانا توبہ کیجئے بدعت ہے مولانا کو تنبہ ہوا کہ واقعی غلطی ہے اور توبہ کی ۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب حضرت کو اپنی بعض تصانیف سناتے تو کسی نے پوچھا کہ حضرت تو ظاہری عالم نہیں ہیں ان کو سنانے سے کیا فائدہ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے قلب میں تو مبادی پہلے آتے ہیں اور مقاصد بعد میں اب جیسے بھی آگئے ۔ اب جیسے ہی مبادی آئے ان کے جمع ہونے سے ویسے ہی مقاصد آگئے ۔ اور ان حضرات کے قلب میں بلا واسطہ مبادی کے مقاصد پہلے آتے ہیں تو حضرت کو سنانے سے یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ مقاصد ٹھیک ہیں پھر مبادی کو ہم خود ٹھیک کرلیتے ہیں ۔ حضرت کی ظاہری حالت کو دیکھتے تو صاحب تصرف ہیں نہ بہت سا ذکر وشغل تھا ۔ دبلے پتلے تسبیح لیے ہوئے یہ معلوم ہوتا تھا کہ تھانہ بھون والوں میں سے ایک نمازی نیک آدمی ہیں (معمولی ہوتے تھے ) مگر تھے کس درجہ کے حضرت کے کمال کی یہی دلیل بس ہے ۔ کہ بڑے بڑے معتبر علماء معتقد تھے ورنہ ایک حضرت مولانا گنگوہی ہی ایسے تھے کہ اگر حضرت کے متعلق ذرا سا بھی شبہ ہوتا تو حقیقت حال کو صاف ظاہر کردیتے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس مرتبہ کے تھے ۔ البتہ ہرشخص کو حضرت حاجی صاحب سے نفع نہ ہوسکتا تھا ۔ کیونکہ آپ کا کلام قدرے مجمل ہوتا تھا ۔ چنانچہ حضرت مولانا گنگوہی ایک بار فرماتے تھے کہ ایک صاحب کہتے تھے کہ جب سے حضرت کے یہاں مثنوی ہونے لگی ہے بہت سے لوگ اپنا ایمان مکہ میں رکھ آتے ہیں کیونکہ کلام نہ سمجھنے سے ایسی ہی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں تو حضرت کے مزاج میں بڑی احتیاط تھی ۔ چنانچہ ایسے مضامین کے بیان کے وقت دیکھ لیتے تھے کہ کوئی نا اہل تو نہیں ہے اور علماء کی مجلس میں بے تکلف بیان فرمادیتے تھے مگر اس جلسہ میں اگر کوئی اہل علم ہی میں سے کج فہم ہوا تو یہ لوگ گمراہ ہوتے تھے ۔ وجہ یہ ہے کہ محققین کی نپی تلی بات ہوتی ہے کم فہموں کی سمجھ میں نہیں آتی اس لئے کچھ کام کچھ سمجھ جاتے ہیں اور گمراہ ہوتے ہیں بعض سلف کا یہی قصہ ہوا کہ ان کا کلام لوگوں کی سمجھ میں آیا نہیں اس لئے ان پر کفر تک فتوئے دیئے گئے حالانکہ جو سلف کی تحقیق ہے وہ خلف کو نصیب بھی نہیں سلف کے ہر ہر لفظ میں علوم بھرے ہوئے ہیں ۔ خلف کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی لکڑی کے عمق میں گھستا