ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
ٌپھر ان کے تہواروں میں یہ مدد دینے لگتے ہیں ۔ ایک مولوی صاحب اس وقت حضرت کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے لگے کہ بعض ہندو تو اس قسم کی باتیں اسی لئے کرتے ہیں کہ انہوں نے اس میں یہ ترکیب چلی ہے کہ مسلمان دین میں مداہنت کرنے لگیں ۔ چنانچہ فلاں جگہ رام لیلہ پر جھگڑا ہوا تھا جس میں 45 آدمی قید ہوئے مگر رام لہلا بند ہوگیا تھا ۔ مگر ہندوؤں نے محرم میں شربت بلانا شروع کیا اس پر وہ برا اثر پھیلا کہ ان 45 آدمیوں کے قید ہونے سے بھی نہ ہوا تھا ۔ اول تو ہندو احسان کرتے ہیں پھر اپنا کام بناتے ہیں ایک جگہ ہندوؤں نے کئی لاکھ روپیہ جمع کیا اور علماء سے کہا کہ مدرسہ عربی بناؤ اور یہ کہا کہ اس قدر روپیہ قربانی میں صرف ہوتا ہے قربانی موقوف کر دو ۔ بعض علماء نے کہا کہ بہت روپیہ ہے لیلو ۔ دیکھئے یہ دین پر اثر ہوا ۔ ہمارا مسلک تو یہ ہے اور یہی ہوچا چاہئے کہ اگر تمام دنیا ملے اور ایک مسئلہ میں خلاف کرنا پڑے تو دنیا بھر کے خزائن کی طرف نظر بھی نہ کریں ۔ ارشاد : حضرت پہلے ہی مضمون کی مناسب فرمانے لگے کہ اسی طرح نفس کے بھی عجیب کید ہیں ایسے قواعد کلیہ ایجاد کرتا ہے اور پھر جزئیات کو اس میں دخل کرتا ہے جس کا کوئی ٹھیک نہیں ۔ چنانچہ ایک مولوی صاحب میرے پاس آئے اور درخواست کی کہ میری ذمہ قرض ہے فلاں فلاں رئیس کو لکھ دو کہ وہ اعانت کریں میں نے کہا کہ میں کسی تکلیف دینا پسند نہیں کرتا ۔ ناحق دوسرے کی طبیعت پر گرانی ہوگی بولے کہ گرانی کا کیا حرج ہے آپ لوگوں کی جو تربیت فرماتے ہیں اس میں بھی تو گرانی ہوتی ہے منجملہ اس کے ایک یہ بھی مجاہدہ میں داخل ہے اور مجاہدہ میں تو کوئی ہوتی ہی دیکھئے تو نفس نے اس جزئیہ کو کیسا کلیہ میں داخل کیا میں نے کہا کہ یہ کیا ضرورت کہ اس وقت ان لوگوں کو ایسے مجاہد کی ضروت ہو موجوہ حالت کے موافق مجاہدہ ہوا کرتا ہے پھر اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو یہ کیا ضرور ہے کہ وہ مال آپ ہی کو دیں یہ نفس کا کید ہے کام تو نرمی سے ان کا ہوگیا تھا ۔ مگر کہ نفس کا کید تھا کہ پہلے ایک کلیہ بنایا پھر اس جزئیہ کو اس داخل کیا۔مجتہدین اور عوام میں یہی تو فرق ہے وہ چیز کو اسکی اصل حقیقت بر سمجھتے تھے اور غرض کی آنکھ سے ہر شے کو دیکھتے ہیں ان ہی کیدوں کی بابت مولانا فرماتے ہیں ۔ شعر صد ہزاراں دام ودانہ ست خدا ٭ ما چوں مرغان حریص و بے نوا دمبدم پابستہ دام نو ایم ٭ گر ہمہ شہباز سمیرغے شویم