ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
حضرت اس میں تو ایک روپیہ بھی بندھ رہا ہے ۔ مولانا نے فرمایا کہ روپیہ بھی آپ کی نزر ہے اور مولانا بھولے تو تھے مگر ویسے بڑے عاقل تھے عقائق پر نظر تھی بھولے پن سے مطلب یہ کہ سیدھے اور سادہ تھے تھے بناوٹ نہ تھی ۔ باقی ویسے نہایت عالی دماغ تھے ۔ ایک دفعہ کسی سفر کے لئے آمادہ تھے منجملہ اور اسباب کے باہر لحاف بھی لائے اور اس کو اس طرح تہ کرکے گاڑی میں رکھا کہ ابرہ تو اوپر ہے اور استرنیچے ایک شخص بوجھ بجکڑوہاں کھڑے تھے مولانا اندر تشریف لے گئے وہ کہنے لگے کہ ان حضرات کو دنیا کا کچھ تجربہ نہیں ہوتا ایسے بھولے بھالے ہوتے ہیں دیکھو تو لحاف کا ابرہ اوپر کردیا اور چاہئے تھا نیچے کی طرف ( جس طرح دستور ہے کہ استر اوپر اور ابرہ نیچے کرتے ہیں ) انہوں نے اس کو الٹ کرتہ کردیا ۔ مولانا تشریف لائے اور فرمایا کس نے اس طرح کیا ہے وہ بولے کہ یوں ہی ہے طریقہ کیونکہ سفر میں گرد وغبار پڑتا ہے ابرہ خراب ہوتا ہے مولانا نے فرمایا کہ سبحااللہ لحاف کے ابرہ کا تو اتنا خیال اور دماغ کی حفاظت کا کچھ خیال نہیں ۔ میاں دماغ قیمتی ہے یا لحاف یعنی اگر استر اوپر رکھا جائے تو اس میں گرد وغبار بھرے گا ۔ اور رات کو استر ہی نیچے رہتا ہے تو اگر دوغبار ناک کے ذریعے سے دماغ میں جائے گا ۔ اور اگرہ ابرہ اوپر ہوتو دماغ محفوظ رہے گا دانشمندی کی یہ حالت تھی پورے محقق تھے رسم پرست نہ تھے کہ ساری دنیا ایسا کرتی ہے ہم بھی ایسا کریں ایسے پاک نفس تھے کہ ایک دفعہ مولانا کے ایک تصحیح کردہ فتویٰ پر کہیں سے کچھ اعتراض لکھے ہوئے آئے تھے میں نے اس کا جواب لکھنا چاہا مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ اس کا جواب مت لکھنا صرف یہ لکھ دو کہ اس کا جواب تو ہے مگر ہم مرغان جنگی نہیں ہیں کہ سوال وجواب کا سلسلہ دراز کریں ۔ بس اس جواب کا حق ایک دفعہ ادا ہوگیا تھا ۔ اور یہ لکھ دو کہ اگر اطمینان نہ ہو تو فوق کل ذی علم علیم ۔ دوسری جگہ دریافت کرلو جنگ وجدل سے معاف کرو مولانا کی یہ بات اس وقت تو کچھ سمجھ میں نہ آئی تھی مگر اب اس کی قدر معلوم ہوتی ہے اور وہ بات یاد آتی ہے جنگ اجدل کرنا سچ مچ اس کا کام ہے جس کو فرصت وبیکاری ہو اس کی مثال ایک حکایت ہے کہ ایک شخص کی داڑھی میں سفید بال تھے جب حجام خط بنانے بیٹھا تو کہنے لگے کہ سفید بال چن کر نکال دینا ۔ نائی نے ساری ڈاری صاف کرکے سامنے ڈال دی اور کہا تم خود چن لو مجھ کو فرصت نہیں کام کا آدمی تو بکھیڑوں سے اس طرح گھبراتا ہے ۔ ہاں شرعی ضرورت ہو تو اور بات ہے ۔ حضرت مولانا محمدقاسم صاحب بجز کفار کے اور کسی سے مناظرہ نہیں کرتے تھے ۔ بہت ہی مجبوری کو ایک بار بعض شیعہ اور بعض غیر مقلدین کا جواب لکھا تھا ورنہ جو مسلمان کہلاتے ہیں خواہ وہ مسلمان نہ ہوں ان سے گفتگو