ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
دوسری بھلا دینے کی ۔ بھول جانا تو زیادہ تعجب کی بات نہیں مگر بھلا دینا نہایت تعجب خیز ہوتا ہے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے خط لکھا جب اخیر میں اپنا نام لکھنا چاہا تو اپنا نام یاد نہ رہا ۔ سوچ رہے ہیں مگر یاد نہیں آتا ۔ دوسری حکایت یہ کہ مولانا فرماتے تھے کہ ایک شخص نے مجھ کو تسخیر کا عمل بتلایا اور اس نے خودہی عرض کیا تھا کہ میرے پاس تسخیر کا عجیب عمل ہے اچھی چیز ہے قبول کر لیجئے وہ مولانا کو جنگل میں لے گیا اور آس پاس خوب دیکھ بھال کر کہ کوئی ہے تو نہیں اس کو بتلایا اس میں کوئی شرک وغیرہ کی بات نہ تھی زبانی رٹوا کردیا کرادیا مختصر االفاظ تھے اس عمل کی قدر بڑھانے کے لئے یہ بھی کہا کہ میں نے ایک بار یہ عمل بطور امتحان کیا تھا ۔ اور کیا تھا ایک امیر زادی کے بلانے کو وہ شریف خاندان اور بڑے گھر کی تھی ۔ تھوڑی دیر گذری کہ وہ سوجال ڈال میرے مکان پر آگئی ۔ نیت اس شخص کی خراب نہ تھی اس سے کہہ دیا کہ ہمارے پاس کوئی کام نہیں چنانچہ وہ چلی گئی ۔ مولانا نے فرمایا کی جب اس حکایت کو اس شخص نے بیان کیا تو مجھ کو یہ خیال ہوا کہ ہم نفس پر کیسے اعتماد کریں اگر ایسا عمل اپنے پاس رہا نہ معلوم کس بلا میں گرفتار ہوجاؤں ۔ بس یہ سوچ کر اس کو بھلا دیا حتٰی کہ اس کا ایک لفظ بھی ذہن میں نہ رہا ۔ اور یہ ہے کرامت کہ ایک چیز ذہن میں جمع کردی جائے اور اس کو ایسا بھول جائے کہ ایک لفظ بھی یاد نہ رہے ۔ چنانچہ جو شخص قرآن شریف بھول جاتا ہے یہ کیفیت نہیں ہوتی کہ ایک لفظ بھی یاد نہ رہے ۔ اور بھلا دینا زیادہ تعجب ہے بھولی ہوئی چیز کا یاد کرنا تو صرف مشکل ہی ہے مگر یاد کی ہوئی کا بھلا دینا تو بے حد تعجب ہے ۔ مولانا کی ہر آن عجیب وغریب تھی ۔ بالکل مجزوبوں کی سی شان تھی ۔ جیسے ابوذرغفاری کی حکایت عجیب ہیں ۔ چنانچہ رسالہ القاسم کے بعض نمبروں میں لکھی بھی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ ان کی شان بالکل مجزوبانہ تھی ۔ اسی کے حاشیہ میں مولانا محمد یعقوب کو بھی اسی جماعت میں گنا ہے جو مجھ کو بہت پسند آیا مولانا کی حکایت اخلاقی اعتبار سے بھی عجیب ہیں مولانا بہت بھولے تھے مزاج میں بہت سادہ پن تھا ۔ ایک دفعہ حضرت مولانا گنگو ہی کی زیارت کو آئے کپڑے اچھے پہنتے تھے اس وقت بھی سارے کپڑے تواچھے مگر کمر بند کی جگہ بان پڑا ہوا تھا لوگ ہوشاک میں تو بزرگوں کی ریس چاہتے ہیں اس میں بھی تو ریس کرلیں ۔ مولانا گنگوہی رحمت اللہ نے فرمایا کہ کیا بان ہی رہ گیا تھا مولانا نے عرض کیا کہ کمر بند نہیں ملا ۔ میں نے خیال کیا کہ مقصود تو اس سے بھی حاصل ہے اس لئے ڈال لیا ۔ مولانا گنگو ہی نے فرمایا کہ الکنی پر میرا اتارا ہوا پاجامہ پرا ہے اس کا کمر بند لے لیجئے مولانا نےدیکھا تو اس میں ایک روپیہ بھی بندھا ہوا تھا عرض کیا کہ