ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
ہے اور قیمت اس کی پچاس روپیہ یا زیادہ ہے تو اس کی قیمت پر صدقہ فطر نہ ہوگا اور جائیداد ( زمین وغیرہ ) اس کے علاوہ ہوگی ۔ یعنی گزراوقات کے لئے تو ایک زمین کافی ہے اور یہ زمین اس سے زائد ہے اور اس زائد زمین کی قیمت پچاس روپیہ یا اس سے زائد ہے تو اس پر صدقہ فطر واجب ہوگا ۔ ایک اور عبادت اس مہینہ کے ساتھ خاص ہے اور وہ چھ روزے ہیں جو اس ماہ میں رکھے جاتے ہیں جن کوشش عید کہتے ہیں ان کا بڑا ثواب ہے بعضے لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ اگر ان کو عید سے اگلے ہی روز شروع کرکے چھ روزے پورے کردیئے جایئں تو کافی ہے اور متفرق طور سے بھی جائز ہے ان کا اتنا ثواب ہے کہ رمضان کے ساتھ ان کو ملا کر گویا اس نے سال بھر تک روزے رکھے زمانہ گرمی کا ہے مگر چھ کا رکھنا کیا مشکل ہے تحصیل دینا میں لوگ کیا کیا تکالیف برداشت کرلیتے ہیں پھر مہلت سے رکھنے کی بھی اجازت ہے ۔ اور ممکن ہے کہ بارش ہی ہوجائے ۔ نعض کتابوں میں ایک مسئلہ لکھا ہے وہ یہ کہ جس ہر قضا کے روزے ہوں اور وہ ان کو شوال کے مہینہ میں رکھے لے تو دونوں حساب میں لگ جاتے ہیں ۔ یعنی قضا روزے رکھنے سے شش عید کے بھی اس میں آجاتے ہیں علیدہ رکھنے کی ضرورت نہیں ان کا ثواب بھی مل جائے گا جیسے بعد وضو سنتیں یا فرض پڑھنے سے تحیتہ الوضو بھی اس میں آجاتی ہیں مگر یہ مسئلہ روزوں کے بارہ میں غلط ہے اوت تحیتہ الوضو کے بارہ میں صحیح ہے ۔ اور تحیتہ الوضو پر قیاس مع الفارق ہے اور اس قیاس میں غلطی ہے اور ان دونوں میں فرق اہل علم سمجھ سکتے ہیں ان کو وجہ معلوم ہونے کے بعد فرق سمجھنا سہل ہوگا اور وہ وجہ یہ ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ تحیتہ الوضوء اور تحیتہ المسجد کیوں مشروع ہوئی ہیں ان کا مشروع ہونا اس لئے ہے کہ کوئی وضوء اور حاضرین مسجد نماز سے خالی نہ ہو ۔ اور سنتیں یا فرض پڑھنے سے یہ مصلحت حاصل ہوگئے ۔ اس واسطے تحیتہ الوضوء یا تحیتہ المسجد پڑھنے کی علیدہ ضرورت نہ رہی اور وہ سنت یا فرض میں مبتداخل ہوگئیں اگرچہ مستقلا پڑھنا زیادہ اولٰی ہے اور چھ روزوں میں اس فضیلت کی دوسری بناء ہے اور وہ بناء ہے کہ ان کے رکھ لینے سے سال بھر کا حساب اس طرح برابر ہوجاتا ہے کہ حق تعالٰی کے یہاں ایک نیکی کی دس نیکیاں ملتی ہیں چنانچہ ارشاد ہے من جاء بالحسنتہ فلھ عشرا مثالھا اس لئے جب کسی نے رمضان شریف کے روزے رکھے تو دس ماہ کی برابر تو وہ ہوئے اور چھ روزہ دوماہ کے برابر ہوئے پورا سال ہوگیا تو اگر چھ قضا کے روزے رکھے تو وہ رمضان ہی کے پورے ہوگئے اور وہ چھ روزے رہگئے جن کا ثواب دو ماہ کے روزوں کا ہے اس