ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
لے چلیں یوں عرض کیا کہ فلاں عمل نے ہمیں بھیجا ہے ان کو آپ کی زیارت کا شوق ہے مگرآپ تشریف لے چلیں تو ہم بہت آسانی سے پہنچا دیں شیخ نے ان سے کہا کہ اسی کو یہاں پکڑ لاؤ وہ آکر لگے ان کو اٹھانے انہوں نے کہا کہ تم میرے مطیع نہیں ہو جنات نے جواب دیا کہ شیخ کے مقابلہ میں آپ کوئی چیز نہیں اگر شیخ آپ کو قتل کرنے کو کہیں تو ہم قتل بھی کردیں ۔ چنانچہ ان کو پکڑ کر شیخ کی خدمت میں لے آئے ۔ شیخ نے ان پر ملامت کی انہوں نے توبہ کی اور شیخ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی ۔ بس اللہ والوں کے مقابلہ میں عمل کی یہ قوت ہے کچھ بھی نہیں ان عاملوں میں بعض اہل تصرف ہوتے ہیں ایسا تصرف کرتے ہیں دوسرے کے مرض کا ازالہ ہوجاتا ہے اور یہ اصل میں تصرف ہے نفس کا اصل فاعل نفس ہے اگرچہ لوگ اس کو ولایت خیال کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی ایک شیعہ ہے طب کا ۔ کبھی اللہ والے بھی ایسے تصرف کرتے ہیں جیسا کبھی تدادیٰ کرتے ہیں مگر یہ شیعہ ولایت کا نہیں ۔ بعضے تصرف کر کے دوسرے سے روپیہ وصول کر لیتےہیں یعنی قلب پر ایسا اثر ڈالتے ہیں کہ وہ روپیہ دیدیتا ہے یہ بھی حرام ہے کیونکہ وہ مغلوب ہو کردیتا ہے اور بعد میں پچھتاتا بھی ہے اور گو یہاں طبیب نفس صورۃ تو ہے کیونکہ خود دیتا ہے مگر حقیقت طیب نفس کی نہیں ہے اور حدیث میں ہے لایحل مال امرا الا بطیب نفسہ اور یہ اگراہ باطن ہے مکر کسی کو التفات بھی نہیں بلکہ اس کو تو کرامت سمجھتے ہیں ایسے لوگوں میں دو شخص ایسے ہیں جن کو شبہ ہوا ۔ اور مسئلہ پوچھنے سے مجھ کو دیندار اورصاحب فہم ہونے کا اندازہ ہوا ۔ گو بدعات میں بھی بیچارہ مبتلا تھے ایک نے مسئلہ تو پوچھا تھا کہ کسی کو وجد آئے اور وہ گر پڑے تو اس کا وضو رہے گا یا نہیں میں کہا ٹوٹ جائے گا ۔ جیسے غشی میں ۔ دوسرے ایک رئیس تھے اور شیخ بھی تھے اور مخلص اور صادق تھے گو سماع میں مبتلا تھے عرس وغیرہ میں بھی شریک ہوتے تھے ۔ مجلس میں حالت وجد میں صرف رویا کرتے تھے رقص وغیرہ نہ کر تے تھے ایک فعہ ایک شخص ان کی مجلس میں اٹھا اور چٹکیاں بجانے لگا ۔ اور اٹھا تھا مکر ان صاحب نے حکم دیا کہ اس کو کان پکڑ کر نکال دو ۔ تو ان رئیس صاحب نے مجھ سے یہ مسئلہ پوچھا تھا کہ ایک شخص نے مجھ کو ستایا تھا میں نے اس کو بددعا دی تھی اور وہ مرگیا مجھ پر گناہ تو نہ ہوگا ۔ انہوں نے کیا اچھی بات کہی اور آج کل تو ایسی صورت میں اپنا کمال اور کرامت سمجھتے لگتے ہیں میں نے جواب دیا کہ دو حال سے خالی نہیں وہ یہ کہ بددعا کے وقت توجہ اہلاک کی طرف تھی یا نہیں اگر توجہ نہ تھی تو قتل کا گناہ نہیں ہوا ۔ البتہ اگر اس قدر بددعا دینا جائز نہ تھا تو بددعا دینے کا گناہ ہوا ورنہ اس کا بھی گناہ نہیں ہوا ۔ اور اگر توجہ اہلا ک کی طرف تھی تو یا تو