ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
اور جیسے تعلیم پر اجرت لینے کو جائز کہا جاتا ہے اسی طرح قرآن سنانے پر اجرت لینے کو جائز کہنے میں کیا قباحت ہے ۔ ارشاد : تعلیم پر اجرت لینے سے اجر نہیں ملتا ۔ مگر تعلیم پر جو ملتا ہے ۔ اس کو اجرت کیوں قرار دیا جائے ۔ بلکہ نفقہ ہے دین کی خدمت پر جو کہ مسلمانوں پر واجب ہے یعنی یہ شخص مسلمانوں کی خدمت دینی کررہا ہے ان کے ذمہ ہے کہ وہ اس کے نفقہ کے کفیل ہوں اور یہ ان کے ذمہ واجب ہے جب نفقہ ہوا تو اجرت نہ ہو ۔ البتہ نہیں مقدار میں شبہ ہوگا کیونکہ نفقہ میں تعیین نہیں ہوتی بلکہ جس قدر اس کے اخراجات کو کافی ہو وہ دینا چاہیے ۔ تو یہ بات ہے کہ یہ تعیین رفع نزاع کے لئے ہے ۔ اور نفقہ کی صورت سے لینے میں اس تعلیم پر اجربھی ملے گا ۔ جب کہ نیت اس کی اللہ کے لئے فیض پہنچانا ہو ۔ اور نفقہ ضرورۃ لیتا ہوا اور اس کا معیار ہے کہ اگر اس کا گذر اس طریقہ سے ہوتا ہو اور کہیں سے زیادہ کی ملازمت آجائے اور وہ چلا جائے معلوم ہوگا کہ زر کا طالب ہے اور اگر نہ جائے تو معلوم ہوگا کہ دین کا خادم ہے ۔ ہاں اگر تنگی سے گزرہوتا ہوا اور چلا جائے تو وہ مذموم نہیں ۔ باقی مردوں پر جو قرآن پڑھتے ہیں اس قرآن پڑھتے کا قیاس تعلیم ٹھیک نہیں کیونکہ تعلیم میں دین کی خدمت ہے اگر تعلیم چھوڑ دی جائے تو دین کو ضرر پہنچے کہ ایک مدت کے بعد قرآن ضائع ہو جائے اس لئے بوجہ ضرورت کے صورتا امام صاحب کے مذہب کو ترک کردیا گیا بخلاف ایصال ثواب کے کہ دین میں اس کی کمی مضرنہیں ۔ واقعہ : ایک صاحب نے دیافت کیا کہ یہ جو کہتے ہیں کہ خشوع و خضوع ۔ آیا یہ عطف تفسیری ہے ارشاد : خشوع متعلق قلب کے ہے اور خضوع متعلق جوارع کے خشوع کے معنی ہیں سکون چنانچہ کلااللہ میں ہے وتر الارض خاشعۃ ای ساکنۃ خشوع عمل میں یہ ہے کہ قلب میں سکون نعینی غیر مقصود میں حرکت فکریہ نہ ہو اور جو چیز موصل الی اللہ نہ ہو وہ غیر مقصود ہے اور جو چیز موصل الی اللہ ہو وہ غیرمقصود نہیں گو مقصود بالذات نہ سہی گو ظاہر میں وہ غیر معلوم ہو ۔ چنانچہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نماز میں تجہیز جیش کرتا ہوں تو ہو تجیز جیش فرماتے تھے اس پر حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ یہ منافی خشوع ہی نہیں اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے وزیر دربار میں جاتا ہے اور امور سلطنت کو پیش کرتا ہے تو وہ امور حضور بادشاہی کے خلاف نہیں سمجھے جاتے کیونکہ اس کی حضور یہی ہے ۔ اسی طرح عمر کو خیال کیجئے ۔ کیونکہ ان کے سٌپرد بھی یہی کام تھا ۔