ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
بلا کر بیان کراتے تھے ۔ مولانا محمد حسین صاحب الہ آبادی بھی تشریف لے آئے ان سے بھی میرے رؤ کی درخواست کی ۔ انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ میرا پیر بھائی ہے میں ایسا نہ کروں گا اسی زمانہ میں ایک صاحب نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضور ﷺ کی خدمت میں بڑا مجمع ہے ۔ اور اس زمانہ میں کانپور کے لوگوں میں یہی شور ہورہا تھا صاحب رویا نے حضور سے دریافت کیا کہ ان مسائل میں حق کیا ہے تو فرمایا کہ اشرف علی جو کہتا ہے وہ حق ہے پھر حضورﷺ نے آہستہ سے یہ بھی فرمایا کہ اس سے کہدینا یہ وقت اس کا نہیں ہے ۔ مطلب یہ تھا عوام الناس میں چونکہ شورش پھیلتی ہے ۔ اس لئے خاموشی کی رخصت ہے ۔ ارشاد : علامت اخلاص کی یہ ہے کہ اگر دوسرا شخص وہی کام کرنے کو آجائے تو یہ شخص کام کرنا چھوڑ دے بشرطیکہ وہ اہل بھی ہو اب تو یہ حالت ہے کہ اگر کوئی مدرسہ پہلے سے ہے اور دوسرا مدرسہ اور ہوجائے اور یہ معلوم ہو کہ وہ اچھا کام کرے گا تو اس کے اکھاڑنے کی فکر کرتے ہیں کیونکہ دنیا کی سب منفعت جاتی ہے ۔ واقعہ : ایک خط حضرت کی خدمت میں دربار طلب حافظ کے آیا ۔ جس میں لکھا تھا کہ کوئی شخص ایسا تجویز کرکے بھی بھیج دیجئے جو حافظ قرآن ہو تجویز سے واقف ہو ۔ صالح ہو ۔طرز تعلیم اچھا ہو ۔ اور بھی چند اوصاف کی بابت تھا ۔ اور تنخواہ لکھی تھی دس روپیہ خشک ۔ ارشاد : مولانا محمد یعقوب صاحب کی خدمت میں ایک بار اسی قسم کا خط آیا تھا ۔ اور لکھا تھا کہ اس شخص میں یہ صفت ہو۔ یہ صفت ہو ۔ وہ صفت ہو اور تنخواہ اسی قدر ۔ تو مولانا نے خط دیکھ کرفرمایا تھا کہ فی صفت ایک روپیہ بھی تو نہیں اچھی قدر کی ۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ دس روپیہ تو خود اپنے کھانے اور دیگر اخراجات میں صرف ہوجاتے ہیں ۔ واقعہ : ایک صاحب نے عرض کیا کہ حافظ لوگ جو محراب سناتے ہیں اور ان کو دیا جاتا ہے ۔ علماء اس کو قرآن پڑھنے کی اجرت قراردے کر ناجائز کہتے ہیں اگر اس کو حبس اوقات کی اجرت قرار دیاجائے تو کیا قباحت ہے ۔ ارشاد : حبس اوقات کی اجرت کہاں ہے اگر حافظ جی مہینہ پھر تک ٹھیرے رہیں اور پڑھیں نہیں تو کون دے اور حافظ جی دن بھر پھرا کریں اور رات کو سنائیں تو مل جائے گا ۔ یہ تو خالص اجرت قرآن پڑھنے پر ہے ۔ واقعہ: ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تعلیم دین اجرت لینے سے اجر ملتا ہے یا نہیں