اور حدیث کا مطلب تو یہ ہے کہ لوگ اپنا بار کسى پر نہ د-الیں اور لوگوں سے بھیک نہ مانگیں جب تک کوئى خاص ایسى مجبورى نہ ہو جس کو شریعت نے مجبورى قرار دیا ہو اور پیشہ کو حقیر نہ سمجھیں اور حلال مال طلب کریں کمائى کو عیب نہ سمجھیں سو اس وجہ سے یہ مضمون مبالغہ کے طور پر بیان فرمایا گیا تاکہ لوگ اپنے ہاتھ سے کمانے کو برا نہ سمجھیں اور کمائیں اور کھائیں اور کھلائیں اور خیرات کریں حدیث کى یہ غرض نہیں ہے کہ سوائے اپنے ہاتھ کى کمائى کے اور کسى طرح سے جو حلال مال ملا ہو وہ حلال نہیں آیا ہاتھ کى کمائى کے برابر نہیں بلکہ بعض مال اپنے ہاتھ کى کمائى سے بڑھ کر ہوتا ہے اور بعضے ناواقف سچے خاصان خدا پر جو متوکل ہیں طعن کرتے ہیں اور دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں جو مذکور ہوئى کہ ان کو اپنے ہاتھ سے کمانا چاہیے. محض توکل پر بیٹھنا اور نذرانوں سے گزر کرنا اچھا نہیں. یہ ان کى سخت نادانى ہے اور یہ اعتراض جناب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے. د-رنا چاہیے سخت اندیشہ ہے کہ ان بزرگوں کو بے ادبى اور ان پر لعن و طعن سے دارین میں بلانا نازل ہوا اور طعن کرنے والوں کو ہلا کر دے بلکہ اولیاء اللہ کى بے ادبى سے اىمان جاتے رہنے اور برا خاتمہ ہونے کا اندیشہ ہے اللہ تعالى اس شخص کو اس دن سے پہلے ناپید کر دے جس دن بزرگوں پر اعتراض کرے کہ اس کے حق میں یہى بہتر ہے. میں کہتا ہوں کہ قرآن و حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے بشرطیکہ انصاف سے اور طلب حق کے لیے تامل کیا جائے کہ جس شخص میں توکل کى شرطیں پائى جائیں تو اس کے لیے توکل کرنا کمانے سے بدرجہا افضل ہے اور یہ اعلى مقام ہے مقامات ولایت سے.