طلاق کى مذمت کا بیان
حدیث 18. میں ہے البغض الحلال الى اللہ الطلاق راہ الحاکم وابوداودو ابن ماجہ عن ابن عمر مرفوعا وسندہ صحیح یعنى زیاہ مبغوض اور زیادہ برى چیز حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک طلاق ہے. مطلب یہ ہے کہ طلاق حاجت کے وقت جائز رکھى گئى ہے اور حلال ہے مگر بلا حاجت بہت برى بات ہے اس کے لیے کہ نکاح تو باہم الفت و محبت اور زوج وزوجہ کى راحت کے واسطے ہوتا ہے اور طلاق سے یہ سب باتیں جاتى رہتى ہیں اور حق تعالى کى نعمت کى ناشکرى ہوتى ہے ایک دوسرے کو کلفت ہوتى ہے باہم عداوت ہوتى ہے نیز اس کى وجہ سے بیوى کے اور اہل قرابت سے بھى عداوت پڑتى ہے. جہاں تک ہو سکے ہرگز ایسا قصد نہ کرنا چاہیے. میاں بیوى کو معاملات میں باہم ایک دوسرے کى برداست چاہیے اور خوب محبت سے رہنا چاہیے. جب کوئى صورت نباہ کى نہ ہو تو مضائقہ نہیں خوب سمجھ لو. حدیث 19. میں ہے کہ نکاح کرو اور طلاق نہ دو یعنى بلا وجہ اس لیے کہ بے شک اللہ تعالى نہیں دوست رکھتا ہے بہت مزہ چکھنے والے مردوں اور بہت مزہ چکھنے والى عورتوں کو یعنى اللہ پاک کو یہ بات پسند نہیں کہ طلاق ہو بلا ضرورت اور میاں دوسرا نکاح کرے اور بى بى دوسرا نکاح کرے ہاں اگر کوئى ضرورت ہو تو کوئى مضائقہ نہیں حدیث20. میں ہے کہ نہ طلاق دى جائیں عورتیں مگر بدچلنى سے. اس لیے کہ اللہ تعالى نہیں دوست رکھتا بہت مزہ چکھنے والے مردوں اور بہت مزہ چکھنے والى عورتوں کو اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس کى پارسائى اور پاکدامنى کے باب میں کوئى خلل ہو جائے تو اس کى وجہ سے طلاق دے دینا درست ہے. اسى طرح اور بھى کوئى سبب ہو تو کچھ حرج نہیں حدیث21. میں ہے کہ نکاح کرو اور طلاق نہ دو اس لیے کہ طلاق دینے سے عرش ہلتا ہے. حدیث22.