بیع سلم کا بیان
مسئلہ. فصل کٹنے سے پہلے یا کٹنے کے بعد کسى کو دس روپے دیئے اور یوں کہا کہ دو مہینے یا تین مہینے کے بعد فلانے مہینے میں فلاں تاریخ میں ہم تم سے ان دس روپے کے گیہوں لیں گے اور نرخ اسى وقت طے کر لیا کہ روپے کے پندرہ سیر یا روپے کے بیس سیر کے حساب سے لیں گے تو یہ بیع درست ہے جس مہینے کا وعدہ ہوا ہے اس مہینے میں اس کو اسى بھاؤ گیہوں دینا پڑیں گے چاہے بازار میں گراں بکیں چاہے سستے بازار کے بھاؤ کا کچھ اعتبار نہیں ہے اور اس بیع کو سلم کہتے ہیں لیکن اس کے جائز ہونے کى کئى شرطیں ہیں ان کو خوب غور سے سمجھو اول شرط یہ ہے کہ گیہوں وغیرہ کى کیفیت خوب صاف صاف ایسى طرح بتلا دے کہ لیتے وقت دونوں میں جھگڑا نہ پڑے مثلا کہہ دے کہ فلاں قسم کا گیہوں دینا. بہت پتلا نہ ہو نہ پالا نارا ہوا ہو. عمدہ ہو خراب نہ ہو. اس میں کوئى اور چیز چنے مٹر وغیرہ نہ ملى ہو. خوب سوکھے ہوں گیلے نہ ہوں. غرضیکہ جس قسم کى چیز لینا ہو ویسى بتلا دینا چاہیے تاکہ اس وقت بکھیڑا نہ ہو. اگر اس وقت صرف اتنا کہہ دیا کہ دس روپے کے گیہوں دے دینا تو یہ ناجائز ہوا. یا یوں کہا کہ ان دس روپے کے دھان دے دینا یا چاول دے دینا اس کى قسم کچھ نہیں بتلائى یہ سب ناجائز ہے دوسرى شرط یہ ہے کہ نرخ بھى اسى وقت طے کر لے کہ روپے کے پندرہ سیر یا بیس سیر کے حساب سے لے لیں گے. اگر یوں کہا کہ اس وقت جو بازار کا بھاؤ ہو اس حساب سے اس کو دینا یا اس سے دو سیر زیادہ دینا تو یہ جائز نہیں بازار کے بھاؤ کا کچھ اعتبار نہ کرو. اسى وقت اپنے لینے کا نرخ مقرر کر لو. وقت آنے پر اسى مقرر کیے ہوئے بھاؤ سے لے لو. تیسرى شرط یہ ہے کہ جتنے روپے کے لینا ہوں اسى وقت بتلا دو کہ ہم دس روپے یا بیس روپے کے گیہوں لیں گے. اگر یہ نہیں بتلایا اور یوں ہى گول مول کہہ دیا کہ تھوڑے روپے کے ہم بھى لیں گے تو یہ صحیح نہیں.