بیع باطل اور فاسد وغیرہ کا بیان
مسئلہ. جو بیع شرع میں بالکل ہى غیر معتبر او رلغو ہو اور ایسا سمجھیں کہ اس نے بالکل خریدا ہى نہیں. اور اس نے بیچا ہى نہیں اس کو باطل کہتے ہیں اس کا حکم یہ ہے کہ خرید نے والا اس کا مالک نہیں ہوا. وہ چیز اب تک اسى بیچنے والے کى ملک میں ہے اس لیے خرید نے والى کو نہ تو اس کا کھانا جائز نہ کسى کو دینا جائز. کسى طرح سے اپنے کام میں لانا درست نہیں. اور جو بیع ہو تو گئى ہو لیکن اس میں کچھ خرابى گئى ہے اس کو بیع فاسد کہتے ہیں. اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک خریدنے والى کے قبضہ میں نہ آئے تب تک وہ خریدى ہوئى چیز اس کى ملک میں نہیں تى. اور جب قبضہ کر لیا تو ملک میں تو گئى لیکن حلال طیب نہیں ہے. اس لیے اس کو کھانا پینا یا کسى اور طرح سے اپنے کام میں لانا درست نہیں. بلکہ ایسى بیع کا توڑ دینا واجب ہے. لینا ہو تو پھر سے بیع کریں اور مول لیں. اگر یہ بیع نہیں توڑى بلکہ کسى اور کے ہاتھ وہ چیز بیچ د-الى تو گناہ ہوا اور اس دوسرى خریدنے والى کے لیے اس کا کھانا پینا اور استعمال کرنا جائز ہے اور یہ دوسرى بیع درست ہو گئى. اگر نفع لے کر بیچا ہو تو نفع کا خیرات کر دینا واجب ہے اپنے کام میں لانا درست نہیں. مسئلہ. زمینداروں کے یہاں یہ جو دستور ہے کہ تالاب کى مچھلیاں بیچ دیتے ہیں یہ بیع باطل ہے. تالاب کے اندر جتنى مچھلیاں ہوتى ہیں جب تک شکار کر کے پکڑى نہ جائیں تب تک ان کا کوئى مالک نہیں ہے شکار کر کے جو کوئى پکڑے وہى ان کا مالک بن جاتا ہے. جب یہ بات سمجھ میں گئى تو اب سجھو کہ جب یہ زمیندار ان کا مالک ہى نہیں تو بیچنا کیسے درست ہوگا. ہاں اگر زمیندار خود مچھلیاں پکڑ کر بیچا کریں تو البتہ درست ہے. اگر کسى اور سے پکڑوا دیں گے تو وہى مالک بن جائے گا. زمیندار کا اس پکڑى ہوئى مچھلى میں کچھ حق نہیں ہے. اسى طرح مچھلیوں کے پکڑنے سے لوگوں کو منع کرنا بھى درست نہیں ہے. مسئلہ.