جناب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم خود متوکل تھے اور جو آمدنى متوکل کو ہوتى ہے وہ ہاتھ کى کمائى سے بہت بہتر ہے اور اس میں خاص برکت اور خاص نور ہے جسے اللہ تعالى نے یہ مرتبہ مرحمت فرمایا ہے اور بصیرت اور فہم اور نور عطا فرمایا ہے وہ کھلى آنکھوں اس کى برکت دیکھتا ہے اور اس کا تفصیلى بیان کسى خاص موقع پر کیا جائے گا. چونکہ یہ مختصر رسالہ ہے اس لیے طوالف کى گنجائش نہیں اتنا سمجھ لینا کافى ہے کہ یہ قول سراسر غلط ہے جیسا کہ بیان ہوا. اور بڑى بے انصافى کى بات ہے کہ ایک تو خود نیک کام سے محروم رہو اور دوسرا کرے تو اس پر لعن وطعن کرو. کیا حق تعالى کو منہ دکھاؤ گے جبکہ اس کے دوستوں کے درپے ہوتے ہو. اور علاوہ فائدہ مذکورہ کے توکل اختیار کرنے میں بہت سے دینى فائدے ہیں اور وہ متوکلین جو مخلوق کى تعلیم کرتے ہیں ان کى خدمت کرنا تو بقدر ان کے ضرورى خرچ پورا ہونے کے فرض ہے سو اپنا حق نذرانہ سے لینا کیوں برا سمجھا گیا جبکہ غیر متوکلین بھى اپنے حقوق خوب مار دھاڑ سے لڑائى لڑ کر وصول کرتے ہیں حالانکہ متوکلین تو بہت تہذیب اور لوگوں کى بڑى رززو کرنے سے اپنا حق قبول کرتے ہیں اور نذرانہ قبول کرنے میں جب کہ ذلت نہ ہو اور استغنا اور بے پروائى سے لیا جائے. خصوصا جبکہ اس کے واپس کرنے میں دینے والے کى سخت دلشکنى ہو تو ظاہر ہے کہ اس میں بھلائى ہى بھلائى ہے حقیقت یہ ہے کہ ایسے حضرات جو سچے متوکل ہیں ان کو بڑى عزت سے روزى میسر ہوتى ہے مگر ان کى نیت اور توجہ محض خدا کے بھروسہ پر ہوتى ہے مخلوق کى طرف نگاہ نہیں ہوتى اور جو طمع رکھے مخلوق سے اور نگاہ کرے ان کے مال پر وہ دغاباز ہے وہ ہمارے اس کلام سے خارج ہے. ہم نے تو سچے توکل والوں کى حالت بیان کى ہے کسى کو حقیر سمجھنا حصوصا خاصان خدا کو بڑا سخت گناہ ہے اور ان حضرات کا اس میں کوئى ضرر نہیں بلکہ نفع ہے کہ برا کہنے والوں کى نیکیاں قیامت کے روز ان کو ملیں گى.