صدقہ فطر کا بیان
مسئلہ. جو مسلمان اتنا مالدارہو کہ اس پر زکوۃ واجب ہو یا اس پر زکوۃ تو واجب نہیں لیکن ضرورى اسباب سے زائد اتنى قیمت کا مال و اسباب ہے جتنى قیمت پر زکوۃ واجب ہو تو اس پر عید کے دن صدقہ دینا واجب ہے چاہے وہ سوداگرى کا مال ہو یا سوداگرى کا نہ ہو اور چاہے سال پورا گذر چکا ہو یا نہ گذرا ہو اور اس صدقہ کو شرع میں صدقہ فطر کہتے ہیں.
مسئلہ. کسى کے پاس رہنے کا بڑا بھارى گھر ہے کہ اگر بیچا جائے تو ہزار پانسو کا بکے اور پہننے کے بڑے قیمتى قیمتى کپڑے ہیں مگر ان میں گوٹہ لچکا نہیں اور خدمت کے لیے دو چار خدمت گار ہیں. گھر میں ہزار پانسو کا ضرورى اسباب بھى ہے مگر زیور نہیں اور وہ سب کام میں آیا کرتا ہے یا کچھ اسباب ضرورت سے زیادہ بھى ہے اور کچھ گوٹہ لچکہ اور زیور بھى ہے لیکن وہ اتنا نہیں جتنے پر زکوۃ واجب ہوتى ہے تو ایسے پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے.
مسئلہ. کسى کے دو گھر ہیں ایک میں خود رہتى ہے اور ایک خالى پڑا ہے یا کرایہ پر دے دىا ہے تو یہ دوسرا مکان ضرورت سے زائد ہے اگر اس کى قیمت اتنى ہو جتنى پر زکوۃ واجب ہوتى ہے تو اس پر صدقہ فطر واجب ہے اور ایسے کو زکوۃ کا پیسہ دینا بھى جائز نہیں. البتہ اگر اسى پر اس کا گذارہ ہو تو یہ مکان بھى ضرورى اسباب میں داخل ہو جائے گا اور اس پر صدقہ فطر واجب نہ ہوگا اور زکوۃ کا پیسہ لینا اور دینا بھى درست ہوگا. خلاصہ یہ ہوا کہ جس کو زکوۃ اور صدقہ واجبہ لینا درست ہے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں اور جس کو صدقہ اور زکوۃ کا لینا درست نہیں اس پر صدقہ فطر واجب ہے.
مسئلہ. کسى کے پاس ضرورى اسباب سے زائد مال اسباب ہے لیکن وہ قرض دار بھى ہے تو قرضہ مجرا کر کے دیکھو کیا بچتا ہے اگر اتنى قیمت کا اسباب بچ رہے جتنے میں زکوۃ یا صدقہ واجب ہو جائے تو صدقہ فطر واجب ہے اور اگر اس سے کم بچے تو واجب نہیں.