حدیث2. میں ہے فرمایا جناب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے کسى نے نہیں کھایا کوئى کھانا کبھى بہتر اس کھانے سے جو اپنے دونوں ہاتھوں کے عمل سے ہو اور بے شک خدا کے نبى حضرت داود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ہاتھوں کے عمل سے کھاتے تھے. مطلب یہ ہے کہ اپنے ہاتھ کى کمائى بہت عمدہ چیز ہے مثلا کوئى پیشہ کرنا یا تجارت کرنا وغیرہ خواہ مخواہ کسى پر بوجھ د-النا نہ چاہیے اور پیشہ کو حقیر نہ سمجھنا چاہیے جب اس قسم کے کام حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے کیے ہیں تو اور کون ایسا شخص ہے جس کى آبرو ان حضرات سے بڑھ کر ہے بلکہ کسى کى آبرو ان حضرات کے برابر بھى نہیں ان سے بڑھ کر تو کیا ہوتى ایک حدیث میں آیا ہے کوئى نبى ایسے نہیں ہوئے جنہوں نے بکریاں نہ چرائى ہوں. خوب سمجھ لو اور جہالت سے بچو اور بعضے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اگر کسى کے پاس مال حلال ہو مگر اپنے ہاتھ کا کمایا ہوا نہ ہو بلکہ میراث میں ملا ہو یا کسى اور حلال ذریعہ سے میسر آیا ہو تو خواہ مخواہ اپنے کمانے کى فکر کرتے ہیں اور اس کو عبادت میں مشغول ہونے سے بہتر سمجھتے ہیں یہ سخت غلطى ہے بلکہ ایسے شخص کے لیے عبادت میں مشغول ہونا بہتر ہے جب اللہ نے اطمینان دیا اور رزق کى فکر سے فارغ البال کیا تو پھر بڑى ناشکرى ہے کہ اس کا نام اچھى طرح نہ لے اور مال ہى کو بڑھائے جائے بلکہ مال حلال تو جس طرح سے میسر آئے بشرطیکہ کوئى ذات نہ اٹھانى پڑے وہ سب عمدہ ہے اور اللہ کى بڑى نعمت ہے اس کى بڑى قدر کرنى چاہیے اور انتظام سے خرچ کرنا چاہیے فضول نہ اڑانا چاہیے.