قران مجید پڑھنے کى فضیلت کا بیان
حدیث 25. میں ہے کہ جس وقت چاہے کوئى تم میں کا اپنے پروردگار سے گفتگو کرنا. سو چاہیے کہ قرآن پڑھے یعنى قرآن مجید کى تلاوت کرنا گویا حق تعالى سے بات چیت کرنا ہے زیادہ غنى لوگوں میں قرآن کے اٹھانے والے ہیں یعنى وہ لوگ کہ جن کے سینہ میں اللہ تعالى نے اس کو یعنى قرآن کو رکھا ہے مطلب یہ ہے کہ جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا اس سے بڑھ کر کوئى غنى نہیں. اس پر عمل کرنے کى برکت سے حق تعالى باطنى غنا مرحمت فرماتے ہیں اور ظاہرى کشائش بھى میسر ہوتى ہے. چنانچہ حضرت امام حسن بصرى رحمۃ اللہ علیہ سے رویات ہے کہ ایک مرد کثرت سے حضرت عمر رضى اللہ تعالى عنہ کے دروازے پر تا تھا دنیاوى حاجتوں کے لیے سو کہا حضرت عمر نے اس مرد سے کہ جا اور پڑھ خد اکى کتاب یعنى قرآن مجید سو چلا گیا وہ مرد پس نہ پایا اس کو حضرت عمر نے. پھر آپ اس سے ملے اور آپ اس کے شاکى ہوئے یعنى اس وجہ سے کچھ شکایت فرمائى کہ تمہارى ہم کو تلاش تھى بلا اطلاع کہاں چلے گئے. جب کوئى کثرت سے مدورفت رکھتا ہو پھر دفعۃ نا چھوڑ دے تو انسان کو فکرى ہو ہى جاتى ہے کہ نہ معلوم کہاں چلا گیا کس حال میں ہے سو اس نے جواب میں عرض کیا کہ میں نے اللہ کى کتاب میں وہ چیز پا لى جس نے مجھے عمر کے دروازے سے غنى اور بے پرواہکر دیا. یعنى قرآن مجید میں ایسى آیت مل گئى جس کى برکت سے میرى نظر مخلوق سے ہٹ گئى اورخدا تعالى پر بھروسہ ہو گیا. تمہارے پاس دنیا کى حاجت کے لیے تا تھا اب کر کیا کروں. غالبا مراد اس سے اس قسم کے مضامین ہوں گے جو اس آیت میں مذکور ہیں وفى السمائ رزقکم وما توعدون. یعنى تمہارى روزى آسمان ہى میں ہے اور جس چیز کا تم وعد کیے گئے ہو وہ بھى آسمان میں ہے یعنى تمہارى روزى وغیرہ سب کاموں کا بندوبست ہمارے ہى دربار سے ہوتا ہے پھر دوسرى طرف متوجہ ہونے سے کیا نتیجہ. حدیث2،26 .