مسئلہ. ہد-ى کے ٹوٹ جانے کے وقت بانس کى کھپچیاں رکھ کے ٹکھٹى بنا کر باندھتے ہیں اس کا بھى یہى حکم ہے کہ جب تک ٹکھٹى نہ کھول سکے ٹکھٹى کے اوپر ہاتھ پھیر لیا کرے. اور فصد کى پٹى کا بھى یہى حکم ہے اگر زخم کے اوپر مسح نہ کر سکے تو پٹى کھول کر کپڑے کى گدى پر مسح کرے اور اگر کوئى کھولنے باندھنے والا نہ ملے تو پٹى ہى پر مسح کر لے.
مسئلہ . ٹکھٹى اور پٹى وغیرہ میں بہتر تو یہ ہے کہ سارى ٹکھٹى پر مسح کرے اور اگر سارى پر نہ کرے بلکہ آدھى سے زائد پر کرے تو بھى جائز ہے اگر فقط آدھى یا آدھى سے کم پر کرے تو جائز نہیں.
مسئلہ. اگر ٹکھٹى یا پٹى کھل کر گر پڑے اور زخم ابھى اچھا نہیں ہوا تو پھر باندھ لے اور وہى پہلا مسح باقى ہے پھر مسح کرنے کى ضرورت نہیں ہے اور اگر زخم اچھا ہو گیا کہ اب باندھنے کى ضرورت نہیں ہے تو مسح ٹوٹ گیا. اب اتنى جگہ دھو کر نماز پڑھے. سارا وضو دہرانا ضرورى نہیں ہے.
وضو کے توڑنے والى چیزوں کا بیان
مسئلہ . پاخانہ پیشاب اور ہوا جو پیچھے سے نکلے اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے البتہ اگر آگے کى راہ سے ہوا نکلے جیسا کہ کبھى بیمارى سے ایسا ہو جاتا ہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹا اور اگر آگے یا پیچھے سے کوئى کیڑا جیسے کینچوا یا کنکرى وغیرہ نکلے تو بھى وضو ٹوٹ گیا.
مسئلہ . اگر کسى کے کوئى زخم ہوا اس میں سے کیڑا نکلے یا کان سے نکلا یا زخم میں سے کچھ گوشت کٹ کے گر پڑا اور خون نہیں نکلا تو اس سے وضو نہیں ٹوٹا.
مسئلہ. اگر کسى نے فصد لى یا نکسىر پھوٹى یاچوٹ لگى اور خون نکل آیا. یا پھوڑے پھنسى سے یا بدن بھر میں اور کہیں سے خون نکلا یا پیپ نکلى تو وضو جاتا رہا. البتہ اگر زخم کے منہ ہى پر رہے زخم کے منہ سے آگے نہ بڑھے تو وضو نہیں گیا. تو اگر کسى کے سوئى چبھ گئى اور خون نکل آیا لیکن بہا نہیں ہے تو وضو نہیں ٹوٹا. اور جو ذرا بھى بہہ پڑا ہو تو وضو ٹوٹ گیا.