بہشتى جوہر ضمیمہ بہشتى زیور حصہ پنجم
حلال مال طلب کرنے کا بیان
حدیث1. میں ہے کہ حلال مال کا طلب کرنا فرض ہے بعد اور فرض کا مطلب یہ ہے کہ حلال مال کا حاصل کرنا فرض ہے بعد اور فرضوں کے یعنى ان فرضوں کے بعد جو ارکان اسلام ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ یعنى مال حلال کى طلب فرض تو ہے مگر اس فرض کا رتبہ دوسرے فرضوں سے کم ہے جو کہ ارکان اسلام ہیں اور یہ فرض اس شخص کے ذمہ ہے جو مال کا ضرورى خرچ کے لیے محتاج ہو. خواہ اپنى ضرورت رفع کرنے کو یا اپنے اہل و عیال کى ضرورت رفع کرنے کو. اور جس شخص کے پاس بقدر ضرورت موجود ہے مثلا صاحب جائىداد ہے یا اور کسى طرح سے اس کو مال مل گیا تو اس کے ذمہ یہ فرض نہیں رہتا. اس لیے کہ مال کو حق تعالى نے حاجتوں کے رفع کرنے کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ بندہ ضرورى حاجتیں پورى کر کے اللہ پاک کى عبادت میں مشغول ہو کیونکہ بغیر کھائے پىئے عبادت نہیں ہو سکتى پس مال مقصود لذاتہ نہیں بلکہ مطلوب لغیرہ ہے. سو جب بقدر ضرورت کے میسر ہو گیا تو خواہ مخواہ حرص کى وجہ سے اس کو طلب کرنا اور بڑھانا نہ چاہیے پس جس کے پاس قدر ضرورت موجود ہو اس پر بڑھانا فرض نہیں. بلکہ مال کى حرص خدائے تعالى سے غافل کرنے والى اور اس کى کثرت گناہوں میں مبتلا کرنے والى ہے خوب سمجھ لو اور اس بات کا لحاظ رہے کہ مال حلال میسر آئے. حرام کى طرف مسلمانوں کى بالکل توجہ نہ ہونى چاہیے. اس لیے کہ وہ مال بے برکت ہوتا ہے اور ایسا شخص جو کہ حرام خور ہو دین و دنیا میں ذلت اور خدا تعالى کى پھٹکار میں مبتلا رہتا ہے اور بعض جاہلوں کا یہ خیال کہ آجکل حلال مال کمانا غیر ممکن ہے اور حلال مال ملنے سے مایوسى ہے سراسر غلط اور شیطان کا دھوکہ ہے خوب یاد رکھو کہ شریعت پر عمل کرنے والے کى غیب سے مدد ہوتى ہے. جس کى نیت حلال کھانے اور حرام سے بچنے کى ہوتى ہے حق تعالى اس کو ایسا ہى مال مرحمت فرماتے ہیں اور یہ امر مشاہدہ سے ثابت ہے اور قرآن و حدیث میں تو جابجا یہ وعدہ آیا ہے.