زکوۃ کا بیان
جس کے پاس مال ہو اور اس کى زکوۃ نہ نکالتى ہو وہ اللہ تعالى کے نزدیک بڑى گنہگار ہے قیامت کے دن اس پر بڑا سخت عذاب ہوگا. رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جس کے پاس سونا چاندى ہو اور وہ اس کى زکوۃ نہ دیتا ہو قیامت کے دن اس کے لیے آگ کى تختیاں بنائى جائیں گى پھر ان کو دوزخ کى آگ میں گرم کر کے اس کى دونوں کروٹیں اور پیشانى اور پیٹھ داغى جائے گى اور جب ٹھند-ى ہو جائیں گى پھر گرم کر لى جائیں گى اور نبى علیہ السلام نے فرمایا ہے جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوۃ نہ ادا کى تو قیامت کے دن اس کا مال بڑا زہریلا گنجا سانپ بنایا جائے گا اور اس کى گردن میں لپٹ جائے گا پھر اس کے دونوں جبڑے نوچے گا اور کہے گا میں ہوں تیرا مال اور میں ہى تیرا خزانہ ہوں. خدا کى پناہ بھلا اتنے عذاب کى کون سہار کرسکتا ہے تھوڑے سے لالچ کے بدلے یہ مصیبت بھگتنا بڑى بیوقوفى کى بات ہے خدا ہى کى دى ہوئى دولت کو خدا کى راہ میں نہ دیناکتنى بے جا بات ہے.
مسئلہ. جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندى یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو ساڑھے باون تولہ چاندى کى قیمت کے برابر روپیہ ہو. شبیر على اور ایک سال تک باقى رہے تو سال گزرنے پر اس کى زکوۃ دینا واجب ہے اور اگر اس سے کم ہو تو اس پر زکوۃ واجب نہیں. اور اگر اس سے زیادہ ہو تو بھى زکوۃ واجب ہے.
مسئلہ. کسى کے پاس آٹھ تولہ سونا چار مہینے یا چھ مہینے تک رہا پھر وہ کم ہو گیا اور وہ تین مہینے کے بعد ملے گا تب بھى زکوۃ دینا واجب ہے غرضیکہ جب سال کے اول و آخر میں مالدار ہو جائے اور سال کے بیچ میں کچھ دن اس مقدار سے کم رہ جائے تو بھى زکوۃ واجب ہوتى ہے. بیچ میں تھوڑے دن کم ہو جانے سے زکوۃ معاف نہیں ہوتى البتہ اگر سب مال جاتا رہے اس کے بعد پھر مال ملے تو جب سے پھر ملا ہے تب سے سال کا حساب کیا جائے گا.