اور خریدتے وقت یہ شرط کر لى تھى کہ یہ دوپٹہ تین گزر کا ہے پھر جب ناپا تو کچھ کم نکلا تو جتنا کم نکلا ہے اس کے بدلے میں دام نہ کم ہوں گے بلکہ جتنے دام طے ہوئے ہیں وہ پورے دینا پڑیں گے. ہاں کم نکلنے کى وجہ سے بس اتنى رعایت کى جائے گى کہ دونوں طرف سے پکى بیع ہو جانے پر بھى اس کو اختیار ہے چاہے لے چاہے نہ لے اور اگر کچھ زیادہ نکلا تو وہ بھى اسى کا ہے اور اس کے بدلے میں دام کچھ زیادہ دینا نہ پڑیں گے. مسئلہ. کسى نے رات کو دو ریشمى ازار بند ایک روپے کے لیے جب صبح کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ان میں کا سوتى ہے تو دونوں کى بیع جائز نہیں ہوئى نہ ریشمى کى نہ سوتى کى. اسى طرح اگر دو انگوٹھیاں شرط کر کے خریدیں کہ دونوں کا رنگ فیروزہ کا ہے پھر معلوم ہوا کہ ایک میں فیروزہ نہیں ہے کچھ اور ہے تو دونوں کى بیع ناجائز ہے اب اگر ان میں سے ایک کا یا دونوں کا لینا منظور ہو تو اس کى ترکیب یہ ہے کہ پھر سے بات جیت کر کے خریدے.
ادھار لینے کا بیان
مسئلہ. کسى نے اگر کوئى سودا ادھار خریدا تو یہ بھى درست ہے لیکن اتنى بات ضرورى ہے کہ کچھ مدت مقرر کر کے کہہ دے کہ پندرہ دن میں یا مہینے بھر میں یا چار مہینے میں تمہارے دام دے دوںگى اگر کچھ مدت مقرر نہیں کى مطلقا اتنا کہہ دیا کہ ابھى دام نہیں ہیں پھر دے دوں گى. سو اگر یوں کہا ہے کہ میں اس شرط سے خریدتى ہوں کہ دام پھر دوں گى تو بیع فاسد ہو گئى اور اگر خریدنے کے اندر یہ شرط نہیں لگائى خرید کر کہہ دیا کہ دام پھر دوں گى تو کچھ د-ر نہیں اور اگر نہ خریدنے کے اندر کچھ کہا نہ خرید کر کچھ کہا تب بھى بیع درست ہو گئى. اور ان دونوں صورتوں میں اس چیز کے دام ابھى دینا پڑیں گے. ہاں اگر بیچنے والى کچھ دن کى مہلت دیدے تو اور بات ہے لیکن اگر مہلت نہ دے اور ابھى دام مانگے تو دینا پڑیں گے.