کہ شوہر ایسى طرح خفیہ آیا ہو کہ کسى کو خبر نہ ہو جیسے بعض اشتہارى مجرم رات کو اپنے گھر جاتا ہے اور رات ہى کو چلا جاتا ہے اس لیے اس حمل کو اس شوہر کى طرف منسوب سمجھیں گے اور نسب کو ثابت مانیں گے البتہ خود شوہر کو اس کا علم قطعى ہو سکتا ہے کہ میں نے صحبت کى ہے یا نہیں. سو اس کو شرعا مجبور نہیں کیا گیا کہ خواہ مخواہ تو اس بچہ کو اپنا ہى مان بلکہ اس کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر تو نے صحبت نہیں کى ہے تو اس نسب کو نفى کر سکتا ہے. مگر چونکہ حاکم شرع کو کسى دلیل قطعى سے خود شوہر کا راست گو ہونا یقینى طور پر معلوم نہیں ہو سکتا بلکہ احتمال ہے کہ کسى اور رنج و غصہ سے عورت کو بدنام کرتا ہو اس لیے اس کى نفى کرنے پر حاکم شرع سکوت نہ کرے گا بلکہ مقدمہ قائم کر کے لعان کا قانون نافذ کرے گا پھر لعان کے بعد دوسروں کو بھى شرعا اجازت ہے کہ اس بچہ کو اس شوہر کا نہ کہیں گے کیونکہ قانون شرعى سے اس کا نسب قطع ہو چکا یعنى شرعا جبر نہیں کہ اب بھى اسى کا مانو بلکہ قانونا اس سے منقطع سمجھیں گے اور واقع کے اعتبار سے پھر بھى یوں کہیں گے کہ غیب کا علم خدا تعالى کو ہے اسى طرح عورت کى نسبت کہیں گے کہ خدا کو خبر ہے کہ مرد سچا ہے یا عورت.
27شعبان 1328ھ
رخصتى سے پہلے طلاق ہو جانے کا بیان
جناب مولانا مولوى سعید احمد صاحب مرحوم مفتى مدرسہ عالیہ مظاہر علوم سہارنپور نے مندرجہ ذىل سوال حضرت حکیم الامۃ مولانا مولوى اشرف على صاحب تھانوى نور اللہ مرقدہ کى خدمت اقدس میں روانہ کیا تھا حضرت نے اس کا جو جواب مرحمت فرمایا وہ ذیل میں درج ہے
سوال مسئلہ 2. ایسى عورت سے یوں کہا اگر فلانا کام کرے تو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے اور اس نے وہ کام کر لیا تو اس کے کرتے ہى تینوں طلاقیں پڑ گئیں.