مسئلہ. نابالغ کا وصیت کرنا درست نہیں.
مسئلہ. یہ وصیت کى کہ میرے جنازہ کى نماز فلاں شخص پڑھائے فلاں شہر میں یا فلانے قبرستان یا فلاں کى قبر کے پاس مجھ کو دفنانا. فلانے کپڑے کا کفن دینا. میرى قبر پکى بنا دینا. قبر پر قبہ بنا دینا. قبر پر کوئى حافظ بٹھلا دینا کہ پڑھ پڑھ کے بخشا کرے تو اس کا پورا کرنا ضرورى نہیں. بلکہ تین وصیتیں اخیر کى بالکل جائز نہیں. پورا کرنے والا گنہگار ہوگا.
مسئلہ. اگر کوئى وصیت کر کے اپنى وصیت سے لوٹ جائے یعنى کہہ دے کہ اب مجھے ایسا منظور نہیں اس وصیت کا اعتبار نہ کرنا تو وہ وصیت باطل ہو گئى.
مسئلہ. جس طرح تہائى مال سے زیادہ کى وصیت کر جانا درست نہیں اسى طرح بیمارى کى حالت میں اپنے مال کو تہائى سے زیادہ بجز اپنے ضرورى خرچ کھانے پینے دوا دارو وغیرہ کے خرچ کرنا بھى درست نہیں. اگر تہائى سے زیادہ دے دیا تو بدون اجازت وارثوں کے یہ دنیا صحیح نہیں ہوا. جتنا تہائى سے زیادہ ہے وارثوں کو اس کے لے لینے کا اختیار ہے اور نابالغ اگر اجازت دیں تب بھى معتبر نہیں. اور وارث کو تہائى کے اندر بھى بدون سب وارثوں کى اجازت کے دینا درست نہیں اور یہ حکم جب ہے کہ اپنى زندگى میں دے کر قبضہ بھى کرا دیا ہو اور اگر دے تو دیا لیکن قبضہ ابھى نہیں ہوا تو مرنے کے بعد وہ دنیا بالکل ہى باطل ہے اس کو کچھ نہ ملے گا وہ سب مال وارثوں کا حق ہے اور یہى حکم ہے بیمارى کى حالت میں خدا کى راہ میں دینے اور نیک کام میں لگانے کا. غرضیکہ تہائى سے زیادہ کسى طرح صرف کرنا جائز نہیں.