مسئلہ. جس شخص کو میراث میں مال ملنے والا ہو جیسے ماں باپ شوہر بیٹا وغیرہ اس کے لیے وصیت کرنا صحیح نہیں. اور جس رشتہ دار کا اس کے مال میں کچھ حصہ نہ ہو یا رشتہ دار ہى نہ ہو کوئى غیر ہو اس کے لیے وصیت کرنا درست ہے لیکن تہائى مال سے زیادہ دلانے کا اختیار نہیں. اگر کسى نے اپنے وارث کو وصیت کر دى کہ میرے بعد اس کو فلانى چیز دے دینا. یا اتنا مال دے دینا تو اس وصیت سے پانے کا اس کو کچھ حق نہیں ہے البتہ اگر اور سب وارث راضى ہوں جائیں تو دے دینا جائز ہے. اسى طرح اگر کسى کو تہائى سے زیادہ وصیت کر جائے اس کا بھى یہى حکم ہے کہ اگر سب وارث بخوشى راضى ہو جائیں تو تہائى سے زیادہ ملے گا ورنہ فقط تہائى مال ملے گا اور نابالغوں کى اجازت کا کسى صورت میں اعتبار نہیں ہے ہر جگہ اس کا خیال رکھو ہم کہاں تک لکھیں.
مسئلہ. اگرچہ تہائى مال میں وصیت کر جانے کا اختیار ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ پورى تہائى کى وصیت نہ کرے کم کى وصیت کرے بلکہ اگر بہت زیادہ مالدار نہ ہو تو وصیت ہى نہ کرے وارثوں کے لیے چھوڑ دے کہ اچھى طرح فراغت سے بسر کریں کیونکہ اپنے وارثوں کو فراغت اور سائش میں چھوڑ جانے میں بھى ثواب ملتا ہے. ہاں البتہ اگر ضرورى وصیت ہو جیسے نماز روزہ کا فدیہ تو اس کى وصیت بہرحال کر جائے اور نہ گنہگار ہوگى.
مسئلہ. کسى نے کہا میرے بعد میرے مال میں سے سو روپے خیرات کر دینا تو دیکھو گوروکفن اور قرض ادا کرنے کے بعد کتنا مال بچا ہے کہ تین سو یا اس سے زیادہ ہو تو پورے سو روپے دینا چاہئیں. اور جو کم ہو تو صرف تہائى دینا واجب ہے. ہاں اگر سب وارث بلا کسى دباؤ و لحاظ کے منظور کر لیں تو اور بات ہے.
مسئلہ. اگر کسى کے کوئى وارث نہ ہو تو اس کو پورے مال کى وصیت کر دینا بھى درست ہے اور اگر صرف بیوى ہو تو تین چوتھائى کى وصیت درست ہے. اسى طرح اگر کسى کے صرف میاں ہے تو آدھے مال کى وصیت درست ہے.