مسئلہ. اگر کسى کے ذمے نمازیں یا روزے یا زکوۃ یا قسم درد زہ وغیرہ کا کفارہ باقى رہ گیاہو اور اتنا مال بھى موجود ہو تو مرتے وقت اس کے لیے وصیت کر جانا ضرورى اور واجب ہے. اسى طرح اگر کسى کا کچھ قرض ہو یا کوئى امانت اس کے پاس رکھى ہو اس کى وصیت کر دینا بھى واجب ہے نہ کرے گى تو گنہگار ہوگى. اور اگر کچھ رشتہ دار غریب ہوں جن کو شرع سے کچھ میراث نہ پہنچتى ہو اور اس کے پاس بہت مال و دولت ہے تو ان کو کچھ دلا دینا اور وصیت کر جانا مستحب ہے اور باقى اور لوگوں کے لیے وصیت کرنے نہ کرنے کا اختیار ہے.
مسئلہ. مرنے کے بعد مردے کے مال میں سے پہلے تو اس کى گوروکفن کا سامان کریں پھر جو کچھ بچے اس سے قرضہ ادا کر دیں. اگر مردے کا سارا مال قرضہ ادا کرنے میں لگ جائے تو سارا مال قرضہ میں لگا دیں گے وارثوں کو کچھ نہ ملے گا. اس لیے قرضہ ادا کرنے کى وصیت پر بہرحال عمل کریں گے. اگر سب مال اس وصیت کى وجہ سے خرچ ہو جائے تب بھى کچھ پروا نہیں بلکہ اگر وصیت بھى نہ کر جائے تب بھى قرضہ اول ادا کر دیں گے اور قرض کے سوا اور چیزوں کى وصیت کا اختیار فقط تہائى مال میں ہوتا ہے. یعنى جتنا مال چھوڑا ہے اس کى تہائى میں سے اگر وصیت پورى ہو جائے مثلا کفن دفن اور قرضے میں لگا کر تین سو روپے اور سو روپے میں سب وصیتیں پورى ہو جائیں تب تو وصیت کو پورا کریں گے اور تہائى مال سے زیادہ لگانا وارثوں کے ذمہ واجب نہیں. تہائى میں سے جتنى وصیتیں پورى ہو جائیں اس کو پورا کریں باقى چھوڑ دیں. البتہ اگر سب وارث بخوشى رضا مند ہو جائیں کہ ہم اپنا اپنا حصہ نہ لیں گے تم اس کى وصیت میں لگا دو تو البتہ تہائى سے زیادہ بھى وصیت میں لگانا جائز ہے لیکن نابالغوں کى اجازت کا بالکل اعتبار نہیں ہے وہ اگر اجازت بھى دیں تب بھى ان کا حصہ خرچ کرنا درست نہیں.