چوتھى شرط یہ ہے کہ اسى وقت اسى جگہ رہتے رہتے سب روپے دیدے اگر معاملہ کرنے کے بعد الگ ہو کر پھر روپے دیئے تو وہ معاملہ باطل ہو گیا اب پھر سے کرنا چاہیے. اسى طرح اگر پانچ روپے تو اسى وقت دے دیئے اور پانچ روپے دوسرے وقت دیئے تو پانچ روپے میں بیع سلم باقى رہى اور پانچ روپے میں باطل ہو گئى. پانچویں شرط یہ ہے کہ اپنے لینے کى مدت کم سے کم ایک مہینہ مقرر کرے کہ ایک مہینے کے بعد فلانى تاریخ ہم گیہوں لیوں گے مہینے سے کم مدت مقرر کرنا صحیح نہیں اور زیادہ چاہیے جتنى مقرر کرے جائز ہے لیکن دن تاریخ مہینہ سب مقرر کر دے تاکہ بکھیڑا نہ پڑے کہ وہ کہے میں ابھى نہ دوں گا. تم کہو نہیں آج ہى دو. اس لیے پہلے ہى سے سب طے کر لو. اگر دن تاریخ مہینہ مقرر نہ کیا بلکہ یوں کہا کہ جب فصل کٹے گى تب دے دینا تو یہ صحیح نہیں. چھٹى شرط یہ ہے کہ یہ بھى مقرر کر دے کہ فلانى جگہ وہ گیہوں دینا یعنى اس شہر میں یا کسى دوسرے شہر میں جہاں لینا ہو وہاں پہنچانے کے لیے کہہ دے یا یوں کہہ دے کہ ہمارے گھر پہنچا دینا. غرضیکہ جو منظور ہو صاف بتلا دے. اگر یہ نہیں بتلایا تو صحیح نہیں. البتہ اگر کوئى ہلکى چىز ہو جس کے لانے اور لے جانے میں کچھ مزدورى نہیں لگتى مثلا مشک خریدا یا سچے موتى یا اور کچھ تو لینے کى جگہ بتلانا ضرورى نہیں. جہاں یہ ملے اس کو دیدے اگر ان شرطوں کے موافق کیا تو بیع سلم درست ہے. ورنہ درست نہیں.
مسئلہ. گیہوں وغیرہ غلہ کے علاوہ اور جو چیزیں ایسى ہوں کہ ان کى کیفیت بیان کر کے مقرر کر دى جائے کہ لیتے وقت کچھ جھگڑا ہونے کا د-ر نہ رہے ان کى بیع سلم بھى درست ہے جیسے اند-ے اینٹیں کپڑا مگر سب باتیں طے کر لے کہ اتنى بڑى اینٹ ہو. اتنى لمبى. اتنى چوڑى. کپڑا سوتى ہو اتنا باریک ہو اتنا موٹا ہو. دیسى ہو یا ولایتى ہو غرضیکہ سب باتیں بتا دینا چاہئیں. کچھ گنجلک باقى نہ رہے.