یلحق الولد بالزوج الدائم نکاحہ بالدخول بالزوجۃ ومضے ستت اشہر ہلالىۃ من حین الوطى والمرادبہ على مایظہرمن اطلاقہم وصرح بہ المصنف فى قواعدہ غیبوبۃ الخشفۃ قبلا اودبراوان لم ینزل. ولا یخلو ذلک من اشکال ان لم یکن مجمعا علیہ علیہ للقطع بانتفائ التولد عادۃ فى کثیر من مواردہ ولم اقف على شئى ینافى مانقلناہ و یعتمد علیہ وعدم تجاوز اقصے مدۃ الحمل وقد اختلف الاصحاب فى تحدیدہ فقیل تسعۃ اشہر وقیل عشرۃ وغاىۃ ماقیل مافیہ عندنا سنۃ ومستند الکل مفہوم الروایات وعدل امص عن ترجیح قول لعدم دلیل قوى على الترجیح ویمکن حمل الروایات على اختلاف عادات النسائ فان بعضہن تلد لتسعۃ وبعضہن لعشرۃ وقدیتفق نادرابلوغ سنۃ واتفق الاصحاب على انہ لایذید عن السنۃ مع انہم رووا ان النبى صلى اللہ علیہ والہ وسلم حملت بہ امہ ایام التشریق واتفقوا على انہ ولدفى شہرربیع الاول فاقل مایکون لبث فى بطن امہ سنۃ وثلثۃ اشہر وما نقل احد من العلمائ انہ من خصائصہ صلى اللہ علیہ والہ وسلم اھ بلفظہ.
اس عبارت میں یہ تینوں مسئلے موجود ہیں اور لطف یہ ہے کہ خود صاحب کتاب کا اقرار ہے کہ یہ مسائل ضرور قابل اعتراض ہیں ان صورتوں میں بچہ کا اس مرد سے پیدا ہونا عادۃ ناممکن ہے مگر کسى رافضى عالم کا قول مجھے ان کے مخالف نہیں ملا.
ہذا ما عندنا واللہ یہدى من یشاء الى صراط مستقیم