لہذا چاہیے کہ ایسى محبت عورتوں سے کرے کہ جس میں شریعت کے خلاف کام کرنے پڑیں مثلا وہ مرد کى حیثیت سے زیادہ کھانے پہننے کو مانگیں تو ہرگز ان کى خاطر کرنے کو رشوت وغیرہ نہ لے بلکہ مال حلال سے جو اللہ تعالى دے ان کى خدمت کر دے. اور عورتوں کو تعلیم و تادیب کرتا رہے اور بیباک و گستاخ نہ کر دے. عورتوں کى عقل ناقص ہوتى ہے ان کى اصلاح کا خاص طور پر انتطام لازم ہے. حدیث 11. میں ہے کہ پیغام نکاح کا کوئى تم میں سے نہ دے اپنے بھائى کے پیغام پر یہاں تک کہ وہ بھائى نکاح کر لے یاچھوڑ دے یعنى جب ایک شخص نے کہیں پیغام نکاح کا دیا ہو اور ان لوگوں کى کچھ مرضى بھى پائى جاتى ہو کہ وہ اس شخص سے نکاح کرنے کو کچھ راضى ہیں تو دوسرے شخص کو اس جگہ ہرگز پیغام نہ دینا چاہیے. ہاں اگر وہ لوگ خود اس پہلے شخص کو انکار کر دیں یا وہ خود ہى وہاں سے اپنا ارادہ منقطع کر دے یا ان لوگوں کى ابھى بالکل مرضى اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے کى نہیں پائى جاتى تو اب دوسرے کو اس لڑکى کا پیغام دینا درست ہے. اور یہى حکم خریدوفروخت کے بھاؤ کرنے کا ہے کہ جب ایک شخص کسى سے خریدنے یا فروخت کرنے کا بھاؤ کر را ہے تو دوسرے کو جب تک اس کا معاملہ علیحدہ نہ ہو جائے اس کے بھاؤ پر بھاؤ کرنا نہیں چاہیے جبکہ باہم خریدو فروخت کى کچھ مرضى معلوم ہوتى ہو خوب سمجھ لو اور اس حکم میں کافر بھى داخل ہے. یعنى اگر کوئى کافر کسى سے لین دین کا بھاؤ کر را ہے اور دوسرے شخص کے معاملہ کرنے کى اس کے ساتھ کچھ مرضى بھى معلوم ہوتى ہے تو مسلمان کو زیبا نہیں کہ اس کافر کے بھاؤ پر اپنا بھاؤ پیش کرے.