اور فلاں فلاں کام نا پسند ہیں اور برے لگتے ہیں ،اگر تو میری کوئی خوبی دیکھے تو اس کو شہرت دے اور اگر کوئی عیب دیکھے تو اس پر پردہ ڈال ۔
اس نے کہا آپ کس حد تک پسند کرتے ہیں کہ میرے گھر والے آپ کی زیارت کرنے کے لئے آیا کریں تو میں نے کہا کہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرے سسرال والے مجھے اکتاہٹ میں ڈالیں‘ پھر اس نے کہا کہ آپ اپنے پڑوسیوں میں سے کس کے بارے میں پسند کرتے ہیں کہ وہ آپ کے گھر آئیں تاکہ میں انہیں آنے کی اجازت دوں اور کن کا آپ کے گھر آنا آپ کو نا پسند ہے تاکہ میں بھی ان کا آنا نا پسند سمجھوں ۔ تو میں نے اسے بتایا کہ کہ فلاں قبیلے کے لوگ نیک ہیں اور فلاں کے برے۔
قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے ساتھ وہ پہلی رات بہت اچھی گزاری اس کے ساتھ زندگی بسر کرتے ایک سال گزر گیا تھا‘ میں نے اس میں کوئی بھی ایسی بات نہ دیکھی جس کو میں نا پسند کروں‘ جس وقت سال پورا ہوا تو میں مجلس قضا سے گھر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت گھر میں تھی‘ میں نے کہا یہ کون ہے؟
میری بیوی نے بتایا کہ یہ آپ کی ساس ہے (یعنی میری ساس)تو اس نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا ’’ اے شریح! تو نے اپنی بیوی کو کیسا پایا؟‘‘ میں نے کہا یہ بہت ہی اچھی بیوی ہے تو اس نے کہا ’’اے ابو امیہ! دو حالتوں کے علاوہ کبھی بھی عورت کی حالت نہیں بگڑتی۔
۱۔ جب کسی بچے کی ماں بن جائے۔
۲۔ اس کا خاوند اس کے ناز و نخرہ کودیکھتا رہے اور اسے کچھ نہ کہے ‘اللہ کی قسم! ناز و نخرہ والی عورت جیسا بڑا شر کبھی بھی کسی نے اپنے گھر میں جمع نہیں کیا ۔تو جتنا بھی میری بیٹی کو با ادب بنانا چاہے بنا ‘ اور جتنا بھی تہذیب یافتہ بنانا چاہے بنا۔ تجھے کوئی روک ٹوک نہیں۔
قاضی صاحب نے کہا ’’ یہ عورت میرے ساتھ بیس سال سے رہ رہی ہے میں نے کبھی بھی اس میں قابل اعتراض کوئی بات نہیں دیکھی ۔ ہاں اتنی زندگی میں صرف ایک دفعہ میں نے اس پر اعتراض کیا تھا اور حقیقت ہے کہ وہ اس میں بھی بے قصور تھی‘ غلطی میری ہی تھی۔
خاوند ایسا ہی ہونا چاہئے اور بیویاں بھی ایسی ہی ہونی چاہیئں اوربیویوں کی مائیں یعنی خاوند کی ساسیں بھی ایسی ہی ہوں۔