پر میں اسے غصے ہوا ہوں۔ امام شعبیؒ نے کہا یہ کیسے؟ قاضی صاحب نے کہا :جب میری شادی ہوئی تھی تو پہلی رات میں اپنی بیوی کے پاس گیا تو میں نے اسے عجیب ہی حسین و جمیل پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں وضو کر کے دو نفل شکرانے کے پڑھ لیتا ہوں ‘جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا میری بیوی بھی میری اقتداء میں نماز پڑھ کر سلام پھیر چکی ہے، جب ہمارا گھر ساتھیوں اور دوستوں سے خالی ہوا تو میں اپنی بیوی کی طرف گیا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو وہ کہنے لگی: ذرا ٹھہر جایئے! اے ابو امیہ! اپنی حالت پر رہیئے۔
پھر اس نے یہ خطبہ پڑھا:
’’ الحمد للہ احمدہ واستعینہ واصلی علی محمد وآلہ‘‘
پھر بات شروع کی تو کہا کہ میں ایک عورت ہوں جو اپنے وطن سے دور ہوں، مجھے آپ کے اخلاق اور آپ کی عادات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے‘ میں نہیں جانتی کہ آپ کی عادتیں کیا ہیں؟ آپ مجھے وہ تمام کام بتا دیں جو آپ کو اچھے لگتے ہیں تاکہ میں وہی کروں اور جو آپ ناپسند کرتے ہیں وہ بھی بتادیں تاکہ میں وہ نہ کروں‘ پھر اس نے کہا کہ آپ کی قوم میں کئی عورتیں تھیں جن سے آپ شادی کرسکتے تھے اورمیری قوم میں کئی مرد میرے لئے ہم سر تھے جن سے میں شادی کر سکتی تھی ۔ لیکن اللہ تعالی جب کوئی کام کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تووہ ہو کر رہتا ہے‘ اب آپ میرے مالک ہیں آپ کو اللہ تعالی نے جو حکم دیا ہے وہ کریں۔
’’ امساک بمعروف او تسریح باحسان ‘‘
میں آپ کو پسند ہوں تو اچھے طریقے کے ساتھ رخصت کرنا‘ میں اپنی بات ختم کرتی ہوں اور اپنے اللہ سے اپنے اور آپ کے لئے گناہوں کی معافی مانگتی ہوں۔
قاضی صاحب فرماتے ہیں: اے شعبی! اللہ کی قسم اس نے مجھے بھی اس مقام پر خطبہ پڑھنے پر مجبور کردیا چنانچہ میں نے خطبہ پڑھا:
’’الحمد للہ احمدہ واستعینہ واصلی علی النبی وآلہ واسلم وبعد‘‘
پھر میں نے کہا کہ اے میری بیوی!بلا شبہ تو نے ایسی اچھی بات کی ہے اگر تو اس پر ثابت قدم رہے گی تو اس میں تو خوش قسمت اور خوش نصیب رہے گی اور اگر تو ایسا نہیں کرے گی تو یہ تیرا خطبہ پڑھنا تیرے خلا ف حجت ثابت ہوگا ۔ دیکھ لے مجھے فلاں فلاں کام اچھے لگتے ہیں