لیتاہے ، اور برائی سے دامن محفوظ کرلیتاہے ،شکر اور صبر کے اسی ملے جلے امتزاج کی وجہ سے اسے خوشی و سرور حاصل ہوتاہے، غم اوربے چینی ، تنگی اور شقاوت دور ہوجاتی ہے اور یوں اس دنیا میں زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے۔
اس کے برعکس وہ لوگ جو خدا کی تعلیمات سے آشنا نہیں، وہ طمع اور لالچ کے امتزاج کے ساتھ دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ،ہر طرف سے اسے سمیٹنے کی کوشش ان کے اخلاق کو تباہ کر ڈالتی ہے ، اس پر یوں لپکتے ہیں جیسے چوپائے ہلہ گلہ کرتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود ، انہیں دلی راحت حاصل نہیں بلکہ مصائب ان پر بکھر کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
ایک طرف محبوب دنیا کے چھن جانے کا خوف دامن گیر ہے، دوسری طرف نفس کی پیاس بجھنے کو نہیں ۔ وہ برابر خواہشات کی لت میں پڑا ہواہے ،اگر ان کا حصول ہو بھی جائے تو مزید کی خواہش دامن گیر ہے اور اگر حصول نہ ہو تو حسرت ساتھ نہیں چھوڑتی۔
اگر مصیبت آپڑے تو بے چینی اور اضطراب … اس کی بد بختی کے سامان کی بابت نہ ہی پوچھئے تو بہتر ہے ،اس کے اعصابی امراض کی بابت کیا کہا جائے؟ خوف اسے حالات کی خطرناک ابتری تک پہنچا دیتاہے، کیونکہ اسے نہ توثواب کی امید ہوتی ہے اور نہ ہی صبرسے تسلی دے کر اس کی مصیبت کو کم کیا جاسکتاہے ۔
وجہ فرق:
اگر آپ ان باتوں کو اپنے مشاہدے میں لائیں اور لوگوں کے احوال دیکھنا شروع کریں، تو آپ کو ایسے مومن جو کہ اپنے ایمان کے مقتضیٰ پر عمل کر نے والا ہو اور اس کے غیر میں بڑا فرق نظر آ ئے گا اور وہ فرق یہ ہے کہ دین اسلام اپنے پیروکاروں کو اللہ کے دئیے ہوئے رزق پر قناعت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے انعامات پر نہ صرف اکتفاء کریں بلکہ ان پر سجدہ شکر بھی بجا لائیں۔
چنانچہ مومن کو کوئی تکلیف یا فقرو فاقہ کی نوبت پہنچتی ہے تو وہ ایمانی حرارت کی وجہ سے قناعت اور رضا بالقضاء کے جذبے کے تحت انہی عوارض سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون حاصل کر رہا ہوتاہے ، وہ اپنے سے ادنیٰ کو دیکھ کر شکر بجا لاتاہے اور بالا کو دیکھ کر صبر کرتاہے اور رضا بالقضا پر عمل کرتاہے۔
اس کے بر عکس نور ایمان سے خالی ایسے عوارض کے پیش آنے