اس کی وجہ بالکل واضح ہے، کیونکہ اللہ پر صحیح ایمان رکھنے والے، عمل صالح سے زندگی کو روشن کرنے والے، دلوں اور اخلاق کی اصلاح کرنے والے، ایسے لوگوں کو دین سے سرور و خوشگواری کے اسباب معلوم ہوتے ہیں ، غم اور بے چینی کا علاج انہیں قرآن و سنت سے معلوم ہوتاہے، جن پر عمل کرتے ہوئے ان کی زندگی جنت نظیر بن جاتی ہے ۔
ذرادیکھئے تو سہی؟
یہ لوگ خوشی کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں، اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، جائز اور مفید کام میں اسے استعمال کرتے ہیں، جب وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے، دل کرتاہے کہ یہ حالت یوں ہی برقرار رہے،اس کی برکتیں برابر رہیں،شاکرین کا ثواب حاصل ہوجائے،ایسے بڑے بڑے بدلے جن کے سامنے دنیا کی عارضی خوشی ہیچ نظر آتی ہے۔
اگر کوئی مصیبت، غم اور تکلیف پہنچ جائے تو جہاں تک ممکن ہوسکے اسے جھیلتے ہیں ،جس قدراسے ہلکا کیا جاسکے ہلکا کرتے ہیں، صبر جمیل کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں، اس کے بغیر تو چارہ کارہی نہیں ،مصائب کامقابلہ کرنے سے تجربات حاصل کرتے ہیں ، اور ان کی دفاعی قوت بڑھتی جاتی ہے، ادھر صبر اور اس کے اجر و ثواب کے ذریعہ اس کے مصائب مضمہل ہوتے جاتے ہیں اور ان کی جگہ ثواب کی اچھی امیدیں آ لیتی ہیں۔
اس بات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عجبا لأمرالمومنین ان امرہ کلہ خیر ،ان اصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ ،وان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ،ولیس ذلک لاحد الا المؤمنین
’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے اس کا ہر معاملہ اس کی بھلائی کا سبب اور ذریعہ ہے اگر اسے خوشی پہنچے تو وہ اس پر شکر کرتاہے ، اور یہ اس کی بھلائی کا سبب بن جاتا ہے،اور اگر ا سے مصیبت پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے ‘یہ بھی اس کی بھلائی کا سبب بن جاتاہے ۔ لیکن یاد رکھنا! یہ صرف مومن کے لئے ہے کسی اور کے لئے نہیں ‘‘
مومن جب ان دونوں صفات کے ساتھ متصف ہوتاہے تو وہ بھلائی چن