انہی خصوصیات اور امتیازات کی بناء پر اللہ پاک نے مرد کو خاندانی ریاست کے لیے مختص کیا ہے:
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآاَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ}
(سورہ النساء: ۳۴)
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس واسطے کہ اللہ نے ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے اور اس واسطے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں‘‘
جیسا کہ انہیں امامت‘ ولایت‘ فتویٰ‘ جہاد اور میراث میں زیادہ حصے کے ساتھ مختص کیا ہے۔ وللرجال علیھن درجۃ۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ’’ نیک اور صالح بیوی دنیا کا بہترین متاع ہے۔ ‘‘
ارشاد ہے:
’’دنیا متاع ہے اور اس کا بہترین متاع نیک بیوی ہے‘‘ (مشکوٰۃ: 3083)
تقویٰ خداوندی کے بعد اسے مرد کے لیے سب سے بڑا کسب قرار دیا ہے۔
’’تقویٰ خداوندی کے حصول کے بعد مومن کے لئے نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی چیز مفید نہیں‘ اگر اسے حکم دیتا ہے تو وہ اس کی اطاعت کرتی ہے‘ اگر اسے دیکھتا ہے تو خوش کر دیتی ہے‘ اگر اس پر قسم کھاتا ہے تو وہ پوری کر دیتی ہے‘ اگر اس سے دور کہیں جاتا ہے تو وہ اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرتی ہے۔‘‘ (طبرانی‘ ابن ماجہ‘ مشکوٰۃ ۳۰۹۵)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسے صالح فرمایا۔ اس سے مراد مال کی کثرت اور حسن جمال کی توقیر نہیں، بلکہ نیکی کا معیار، اس کا خاوند کی اطاعت کرنا اور اس کے دل کو خوش کرنا بنایا ہے۔ چنانچہ اسے پراگندہ نہ دیکھے‘ اگر اسے سونگھے تو اسے خوشبو ہی آئے۔ نیکی کا معیار عفت ہے کہ اگر خاوند موجود نہ ہو یا جنسی ملاقات میں مشاغل کی کثرت حائل ہو جائے تو وہ پاکدامن رہے۔
بہت سی ایسی ہوتی ہیں جو اپنے ہم سفر زندگی کی غیر موجودگی کے موقع کی ٹوہ میں رہتی ہیں‘ پھر ایسی راہ پر چل پڑتی ہیں کہ جسے ان کا ہم سفر پسند نہیں کرتا۔ ضمیر انہیں ٹوکتا ہے‘ جب ضمیر کی روک ٹوک ختم ہو جاتی ہے اور رقابت زائل ہو جاتی ہے تو فتنہ رونما ہوتا ہے اور ظہور فساد ہو جاتا ہے۔
حضرت عمرؓ اپنی رعایا کے احوال جاننے کے لیے رات کو گشت کر رہے