ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ جب وہ اپنی ہمت سے بڑھ کر کام کرنا شروع کرتی ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو وہ کرسکتی تھی اب وہ بھی نہیں کرسکتی۔
عورت کی ماہواری کے ایام کے دوران‘ عورت کو طبعی طور پر کچھ کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن ان ایام میں کام میں تو کوئی کمی نہیں آتی۔ اسی طرح ولادت سے قبل اور بعد کچھ ماہ اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
ان ادوار میں عورت جب مسلسل مشقت کرتی رہتی ہے تو بالآخر ایک نہ ایک دن اس کی کمزوری اسے بے جان بنادیتی ہے۔ اس کی صحت گرنا شروع ہوجاتی ہے‘ طرح طرح کے امراض اسے آگھیرتے ہیں۔ معصوم اولاد جنہیں ماں کی ضرورت تھی آج ماں کو ان کی ضرورت ہے۔ نوجوانی ہی میں بڑھاپے نے دستک دینا شروع کردی۔
کام کاج کے لیے عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے بارے میں اسلام کی رائے:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی ذمہ داری مسلمان خواتین کو خصوصاً اور صحابہ کو عموماً تعلیم و تعلم سکھانے کی تھی۔ کیونکہ وہ خانوادہ نبوت کی چشم و چراغ تھیں‘ نبوت کا فیضان ان پراتم برستا تھا‘ وہ اس سے بالمشافہ مستفید ہوتی تھیں۔ چنانچہ انہیں مرد و زن سے اختلاط کی شدید ضرورت تھی۔ انہیں تبلیغ اسلام کے لیے باہر نکلنے کی قطعی ضرورت تھی۔ لیکن قرآن انہیں حکم دیتا ہے۔
{وَقَرْنَ فِیْ بِیُوْتِکُنَّ}
’’اپنے گھروں ہی میں ٹھہری رہو‘‘
اگر ازواج مطہرات کو یہ حکم ہے تو عام خواتین کے بارے میں یہ حکم کیوں نہ ہوگا؟
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے عورت کو وسیع تر فضا مہیا کی ہے۔ اس کے اندر جو داعیات اٹھتے رہتے ہیں‘ ان کو دبانے اور مٹانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کی تکمیل کی اس کو دعوت دی گئی ہے۔
اسلام نے خواتین کو جہاد جیسے مشقت‘ صبر آزما‘ اور ایثار و قربانی کے طالب عمل میں جانے کی بھی اجازت دی ہے۔ حتیٰ کہ ام حرام ؓ کو تو سمندپار جہاد کی خوشخبری دی اور ان کی درخواست پر یہ فرمایا: