دوسرے طریقے سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ ’’وغیرہ‘‘ کا لفظ تواس وقت تک ایجاد نہیں ہوا تھا مگر مسلمان مرد اور عورتیں اور ایمان لانے والے مرداور ایمان لانے والی عورتیں اور اس طریقے سے دوسرے تمام فضائل میں شریک ہونے والے مرد اور عورتیں۔ لیکن ایک ایک کو الگ الگ کرکے بیان کیا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اسلام اورایمان میں تو مرد اور عورت شریک ہوسکتے ہیں۔ چلئے فرمانبرداری میں تو ممکن ہے۔ لیکن صادقین اور صادقات میں تو مشکل ہے۔ اس میں عورت جھوٹ بول رہی ہے‘ کبھی اپنی کمزوری چھپانے کے لیے‘ کبھی کھانے کے کی خرابی چھپانے کے لیے‘ کبھی اپنے بچے کی بری عادت پر پردہ ڈالنے کے لیے‘ کبھی سوجانے کی کمزوری پر‘ اور عورتیں سچائی میں مردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں ‘ یہ تو مردانہ کام ہے بہادری کا کام ہے۔
والسابقین والسابقات یہ تو ٹھیک ہے لیکن الصابرین والصابرات بھلا وہ صبرکہاں کرسکتی ہیں ؟ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ سب سے پہلے ان پر صدمے کا اثر پڑتا ہے‘ سب سے پہلے انہی کی زبان سے فریاد نکلتی ہے ‘ بعض اوقات تو ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے‘ بعض اوقات اولاد کا غم ہے… اللہ محفوظ رکھے… یا عزیزوں کا غم‘ سب سے پہلے عورت پر پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فطرت انسانی سے واقف تھے۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے امور سے بھی واقف تھے کہ ہم اپنی بہنوں سے بد گمانی کریں گے۔ الصابرین والصابرات… جی نہیں صبر کے میدان میں عورتیں کسی حال میں مردوں سے پیچھے نہیں۔
والخاشعین والخاشعات… اب آیا معاملہ مال کا۔ تو عورت مرد کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ حاتم کا نام تو سنا ہوگا لیکن حاتمہ کا نام نہیں سنا ہوگا۔ اس لیے کہ صدقے میں عورتیں کیا دیں گی ؟وہ تو جمع کرنے والی ہیں‘ وہ بڑی سوگھڑ عورتیں ہیں‘ بہت گر ہست عورت ہے یعنی بچا بچا کر رکھنے والی۔ اس لیے فرمایا والمتصدقین والمتصدقات۔
اچھا صاحب روزہ بڑا مشکل معاملہ ہے۔ والصائمین والصائمات والحافظین فروجھم والحافظات‘ والذاکر ین اللہ کثیرا والذکرات۔
اتنی لمبی اعمال کی یہ فہرست کیوں بیان کی ؟تاکہ معلوم ہو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جس طرح اپنے بندوں پر شفقت کرتا ہے اسی طرح اپنی بندیوں پر بھی شفقت کرتا ہے۔ اس کی صفت ربوبیت اور اس کی صفت رحمت مردوں