عورت سے نفرت اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ انہیں زندہ درگور کر دیتے تھے۔ ہیثم بن عدی نے ذکر کیا ہے کہ زندہ درگور کرنے کا اصول عرب کے تمام قبائل میں رائج تھا‘ ایک اس پر عمل کرتا تھا‘ دس چھوڑتے تھے۔ یہ سلسلہ اس مدت تک رہا جب تک اسلام نہیں آیا۔
بعض تو ننگ و عار کی بناء پر زندہ درگور کرتے اور بعض خرچ و مفلسی کے ڈر کی وجہ سے اولاد کو قتل کرتے تھے۔
جبکہ عرب کے بعض رؤساء ایسے بھی تھے جو ایسے مواقع پر بچوں کو خرید لیتے اور ان کی جان بچا لیتے۔ صعصعہ بن ناجیہ کا بیان ہے کہ اسلام کے ظہور کے وقت تک میں تین سو زندہ درگور ہونے والی لڑکیوں کو فدیہ دے کر بچا چکا تھا۔
اگر کبھی سفری مشغولیات کی وجہ سے بچی بڑی اور سیانی ہو جاتی تو باپ کسی بہانے سے لے جا کر اسے زندہ درگور کر دیتا۔ مثلاً ایک شخص حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے دور جاہلیت کا ایک واقعہ بیان کرنے لگا کہ
’’میرے ہاں ایک بچی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ میں جب کبھی اسے بلاتا تو بڑی خوشی سے میرے پاس آ جاتی۔ ایک دن میں نے اسے بلایا تو وہ میرے پیچھے دوڑتی ہوئی آئی۔ میں اسے لے کر اپنے قبیلے ہی کے ایک کنویں پر چلاگیا اور اسے کنویں میں دھکیل دیا اس وقت بھی وہ بچی ابا‘ ابا پکارتی رہی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ سن کر اشک بار ہو گئے اور داڑھی مبارک تر ہو گئی۔
(سنن الدارمی ‘ باب ما کان علیہ الناس قبل مبعث النبیؐ)
قیس بن عاصم نے زمانہ جاہلیت میں آٹھ دس لڑکیاں دفن کی تھیں۔
حق میراث سے تو پہلے سے ہی محروم تھی چنانچہ جب میراث کا حکم نازل ہوا تو عورت کی میراث پر اہل عرب متعجب ہوئے اور کہنے لگے:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بھلا یہ لونڈی جو نہ تو گھوڑے پر سوار ہو سکتی ہے اور نہ ہی مدافعت کر سکتی ہے ‘یہ بھی میراث کی حق دار ہے؟
یہ تھا اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں اور دیگر اقوام کے ہاں عورت کا درجہ۔ آپ نے دیکھا کہ عورت کو بدی کا محور تصور کیا جاتا