کے ہاں کسی لڑکی کی پیدائش پیام غم تھی۔ نرینہ اولاد پر وہ اتراتے لیکن لڑکی کی پیدائش سے ان کا سر رفعت کی چوٹیوں سے گر جاتا۔ قرآن مجید نے ان کے انہی جذبات کی عکاسی ان الفاظ میں کی ہے:
{وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّ ھُوَ کَظِیْمٌ٭ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَا بُشِّرَ بِہٖ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ}
(سورۃ النحل:۵۸،۵۹)
’’جب ان میںسے کسی کو لڑکی کی خوشخبر ی دی جاتی تو دن بھر اس کا چہرہ سیاہ رہتا اور وہ غم سے گھٹتا رہتا۔ اس خوشخبری کی برائی کی وجہ سے اپنے آپ کو قوم سے چھپائے رکھتا(یہ سوچتا کہ) آیا ذلت برداشت کرتے ہوئے اسے باقی رکھے یا زمین میں دبا دے‘‘۔
عورت کو میراث میں حصہ نہ دیتے تھے اور کہتے تھے:
’’لایرثنا الا من یحمل السیف ویحمی البیضۃ‘‘
’’ہم تو اسی کو وارث بناتے ہیں جو تلوار اٹھا سکے اور خود کی حفاظت کر سکے‘‘۔
عورت کو نہ تو اپنے خاوند پر کچھ حق حاصل تھا اور نہ ہی طلاق کی کوئی حد مقرر تھی۔ اور نہ ہی بیویوں کی تعداد مقرر تھی۔ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا تو اس کی بیوی میراث میں تقسیم کر دی جاتی اور متوفی کا بڑا بیٹا اس کا پہلا حقدار ہوتا۔
زمانہ جاہلیت میں عورت کی عدت مکمل سال تھی۔ اس دوران وہ اپنا حلیہ بگاڑ کر رہتی‘ گندے چیتھڑے پہنتی‘ گندے کمرے میں رہتی۔ زیب و زینت اور صفائی و ستھرائی کو خیرآباد کہہ دیتی‘ پانی کو چھوتی تک نہ تھی‘ نہ ناخن کاٹتی اور نہ ہی بال۔
عرب اپنی باندیوں کو زنا پر مجبور کرتے تھے اس پر ان سے اجر لیتے ‘ قرآن کریم نے اسی سے روکا:
{وَلاَ تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَائِ اِِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا } (النور: ۳۳)
’’اور تمہاری لونڈیاں جو پاکدامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو‘‘
کھانے میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو مردوں کے لیے خاص تھیں اور عورتیں ان سے محروم تھیں۔