ذیل نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
٭…افضال احمد: ایک نیا شادی شدہ امیر نوجوان
٭…مریم: افضال احمد کی دلہن
٭…محمد وسیم: افضال احمد کا دوست
٭…زبیدہ: افضال احمد کی چھوٹی بہن
٭…آمنہ مائی: افضال احمد کی امی جان
٭…ماسی: گھر کی ملازمہ
٭…انیس: خادم
شام کا سہانا وقت ہے افضال احمد اپنی دکان سے آرہا ہے راستہ میں اس کا دوست محمد وسیم ملتا ہے ۔
محمد وسیم:السلام علیکم!
افضال احمد:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محمد وسیم:کہو بھائی کیسے ہو؟
افضال احمد:
یار کیا بتاؤںآج تو اتنا کام جمع ہوگیا تھا کہ کچھ پوچھو ہی مت‘ دوتین آرڈر کینسل کرنے پڑے اور ایک مصیبت ہڑتالوں پر ہڑتالیں چلی آرہی ہیں۔
محمد وسیم:
ٹھیک ہے ! آج کل کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے ،پیمنٹ وصول نہیں ہورہی ،میں بھی نکلنے کی تیاری کررہاتھا کہ عثمان سیٹھ نے حساب کا دفتر لاکر رکھ دیا۔
افضال احمد:
اور لطف کی بات یہ ہے کہ دکان سے تھک ہار کر گھر پہنچتے ہیں تو وہاں روز ایک نئی الجھن کا سامنا ہوتاہے۔
محمد وسیم:
ہاں! بھائی انسان دکان کی الجھنوں اور اس کے بکھیڑوں سے نہیں گھبراتا‘ لیکن گھر کی الجھنیں؟خدا کی پناہ … روح اور جان کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔
افضال احمد:
صحیح بات ہے یار!تم نے تو دل کی بات کہی،جب سے شادی کے چکر میں پھنسا ہوں‘ عجیب کشمکش میں مبتلا ہوں۔اب جب گھر پہنچوں گا تو کوئی نئی آفت اور الجھن منہ نکالے کھڑی ہوگی اور خوبی کی بات تو یہ