وہ بے چارے یہ بات نہیں جانتے کہ انسانی معاشرے میں فرد کا اپنا کوئی علیحدہ وجود نہیں ہوتا۔ اگر ہر فرد اپنے کو دوسرے فرد سے علیحدہ اور بے تعلق سمجھنے لگے تو ایک بھی انسان اس دھرتی پر زندہ نہ رہ سکے۔ یا تو اپنی موت خود ہی مرجائے گا یا اپنے علاوہ کسی کا وجود قبول کرنے پر راضی نہ ہوگا اور لڑ لڑ کر مرجائے گا۔
یہی چیز جب معاشرے کی اکائی یعنی خاندان میں آتی ہے تو خاندانوں میں لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں‘ بات روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ اور وجہ بالکل واضح ہوتی ہے کہ ہر فرد دوسرے کو حقیر سمجھ رہا ہوتا ہے اور اس سے نفرت کررہا ہوتا ہے۔
زندگی میں بہت سی باتیں دوسرے افراد کی طرف سے آپ کے سامنے ایسی بھی آئیں گی‘ آپ انہیں برداشت نہیں کرسکیں گی‘ لیکن اگر آپ اس موقع پر صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایثار سے کام لیں تو زندگی اپنے مزید دریچے یعنی سرسبز و شادمانی کے ساتھ کھول دے گی۔
اگر آپ زندگی میں دوسروں کے جذبات کا خیال رکھیں اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کریں تو یقین کیجئے …اللہ پاک آپ کو اس کا اجر ضرور دیں گے۔
ایثار‘ انسانی اخلاق و اقدار کی معراج ہے۔ ایثار کی جو مثالیں اسلام کے نام لیواؤں نے اس دنیا میں قائم کی ہیں۔ شاید دنیا کی کوئی تہذیب بھی ان کے مثل مثال لا نہیں سکتی۔ ایثار کا ایک جذبہ تو یہ ہے کہ آپ اپنے حصے کے دو حصے کرکے ایک خود رکھ لیں‘ اور دوسرا دوسرے کے نام کردیں۔ لیکن ایثار کا اعلیٰ جذبہ جو اسلامی اقدار نے مسلمانوں کو سکھایا وہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنا پورا حصہ دوسرے کے نام کردیں اور پورے حصہ ہی سے دستبردار ہو رہیں۔
اسلامی معاشرے میں ایسا بھی ہوا کہ ایک صحابی نے ایک بکری دوسرے کو ہدیہ کی۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ فلاں کو اس کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے‘ انہوں نے آگے ہدیہ کردی۔ بالآخر سات گھروں میں سے یہ ہدیہ ہوکر واپس اسے ’’متصدق‘‘ کے پاس آن پہنچا۔
ایثار کی ایسی مثالیں شاید دنیا کی کوئی تہذیب نہ پیش کرسکے۔ یہی وہ ایثار اور قربانی کا جذبہ تھا‘ جس نے مسلمان معاشرے کو باہم مضبوطی سے جوڑے رکھا۔ لیکن جب یہ جذبہ معاشرے کی اکائیوں میں سے نکلنا شروع ہوجائے تو معاشرے کا وجود کمزور پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔