سوار رہتا ہے اور زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔
انسان پریشان ہوتا ہے کہ اسے کیا ہوا‘ حالانکہ یہ خود اس کی اپنی ہی کارستانیاں ہوتی ہیں۔
مسلمان کا ایمان یہ ہے کہ زندگی چند روزہ ہے‘ ایک مصیبت آتی ہے ‘ساتھ ہی دوسری منتظر رہتی ہے۔ مسلمان ان مصائب سے گھبراتا ہے۔ ایک ایک کرکے انہیں جھیلتا رہتا ہے۔ مصائب کو تو آنا ہی ہوتا ہے‘ چاہے آپ صبر کریں یا نہ کریں‘ اگر آپ نے اپنے آپ کو مطمئن کرنا سیکھ لیا تو ایک کے بعد دوسری اطمینانی کیفیت آتی رہے گی‘ مایوسی اور دل برداشتگی کا احساس ٹھنڈا پڑتا جائے گا۔ گویا اگر آپ نے احساس کو قابو میں کرلیا تو مصیبت اور تکلیف بھی قابو میں آسکتی ہے ۔
ع مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں
اپنی ذات پر اعتماد کیجئے:
ڈورتھی کارینگی نے اپنی کتاب ’’سدا جوان رہیئے‘‘ میں بڑے کام کی باتیں کہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے دنیا کا ہر شخص اپنے خیالات ‘نظریات‘ ذہانت‘ قابلیت اور صلاحیتوں کے اعتبار سے دوسروں سے مختلف واقع ہواہے۔ ان کے دل و دماغ جس انداز میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں ان کی شخصیت اور کردار اسی روشنی میں پروان چڑھتا اور نشونما پاتاہے ۔ کردار کی صحیح تعمیر اور اپنی ذات پر اعتماد بحال رکھنے کے لئے دو تین باتیں نہایت ضروری ہیں:
اول :روزانہ تنہائی کے چند لمحے نکال کر اپنی صلاحیتوں اور کار کردگی کا بغور جائزہ لیں ۔
دوم :بری عادتوں کے خلاف قوت ارادی کا مضبوط حصار قائم کریں اور ان کی سرکوبی کے لئے اپنی پوری قوت اور ذہنی وسائل بروئے کار لائیں۔
سوم: زندگی کی گہما گہمی اور کاروبار حیات میں پورے جوش و خروش اور سرگرمی سے حصہ لینے کا مظاہرہ کریں۔
مشہور ماہر نفسیات ایلفرڈایڈلر کی حالیہ تحقیقات سے یہ بات اب پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جن لوگوں کو اعصابی امراض کی شکایت لاحق ہوتی ہے‘ ان میں سے اکثر اپنی ذات پر اعتماد سے محروم ہوتے ہیں ۔
ایک بار اگر انسان اس دولت سے محروم ہوجائے تو پھر اس کی بازیافت بڑی دشوارہوتی ہے۔ساری عمر دوسروں کی مدد اور سہاروں کا محتاج ہوکر زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔