داریوں کے احساس کی وجہ سے ہر وقت کاموں ہی کے متعلق سوچتے رہتے ہیں اور ذہن کو کسی وقت کام کے بارے سے آزاد نہیں کرتے۔
ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ذہن کا جائزہ لیں اور کام کا ہوّا دماغ سے نکال دیں۔کام کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو، آرام ضروری ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ہر وقت سوچتی نہ رہیں۔
دن رات میں کچھ حصہ ایسا ضرور نکال لیجئے جس میں آپ کام کی کوئی بات نہ سوچیں ، تنہائی میں اپنے جسم اور دماغ کو بالکل ڈھیلا چھوڑدیں اور دماغ کو عادی بنائیں کہ اس وقفہ میں وہ تفریح اور دلچسپی ہی کی باتوں کی طرف متوجہ رہے۔ یہ وقفہ چاہے کتنا ہی کم ہو‘ لیکن ہونا ضرور چاہئے۔
دوسرا وقفہ ایسا ہونا چاہئے جو آپ بے تکلف ‘پر خلوص اور خوش باش دوستوں کے ساتھ گزاریں ، ہنسی مذاق ‘قہقہوں اور لطیفوں کے سوا کوئی بوجھل بات نہ کی جائے۔
ان وقفوں کے بعد پوری قوت اور دلچسپی سے کام پر متوجہ ہوں ،پھر دیکھئے… آپ کا دل کس طرح کام میں لگتا ہے۔اور آپ اپنے دل و دماغ اور جسم میں کتنی قوت و توانائی محسوس کرتی ہیں۔
کام کی طرح آرام بھی ضروری ہے ،جو لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی کرتے ہیں ، وہ اپنی صحت اور جسم کے دشمن ہیں۔
دماغی کام کرنے والوں کا دماغ جس وقت تھکا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسے صا ف ہوا سیجو آرام حاصل ہوتاہے وہ نیند سے بھی نہیں ہوتا‘ دماغ کو فرحت اور تازگی صاف خون ہی سے مل سکتی ہے اور خون کا صاف ہونا اچھی اور صاف ہوا پر موقوف ہے۔جو شہروں کی گنجان آبادی میں نہیں مل سکتی، اس کے لئے دور‘ کھلے میدانوں میں تفریح کرنے کا مشورہ سب سے قیمتی مشورہ ہے ۔
جب آپ دماغی کام کرتے کرتے تھک جائیں تو اسے چھوڑ دیں اور کھلے سبزہ زاروں میں چلے جائیں ‘ کھلے میدانوں اور سبزہ زاروں میں ٹہلنے سے آپ کا دماغ تازہ ہوجائے گا ۔ جو لوگ کھلی فضا اور صاف ہوا میں ٹہلنا پسند نہیں کرتے ،اسے اپنا معمول نہیں بناتے‘ ان کا دماغ کُند رہتاہے۔
طلبہ کو خاص طورسے اس مفید مشورہ پر عمل کرنا چاہئے ، یہ خیال کہ زیادہ پڑھنے سے قابلیت بڑھتی ہے‘دماغی قوتیں تیز ہوتی ہیں‘ صحیح نہیں