ہیں۔ ہر چیز کو منفی انداز میں سوچتے ہیں۔
ایک حقیقت پسند انسان خیالی تصورات کے قلعے نہیں بنایا کرتا یہ تو بچوں کی سی عادت ہے۔ جب وہ بچہ ہوتا ہے اور اسے اچھے اور برے کی تمیز نہیں ہوتی تو اس کا ہر فعل قابل سزا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر بڑا ہو کر بھی اس میں یہی جذبات رہیں تو وہ ایک اندوہ ناک مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
نقصان کیا ہوتا ہے کہ کسی کی طرف سے کوئی بات سامنے آئی، آپ نے منفی سوچنا شروع کیا‘ نتیجتاً برا گمان پیدا ہوا اور انتقام کا جذبہ بھڑکنے لگا۔ اب اگر آپ انتقام کی طرف بڑھتی ہیں تو بھی غلط اور اگر آپ اندر ہی اندر سے ان منفی جذبات میں بھڑکتی رہتی ہیں تو آپ دراصل اندر ہی اندر کمزور ہو رہی ہوتی ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب آپ کو کسی کی طرف سے کوئی غلط بات بتائی جاتی تو آپ فوراً اس کے لیے کوئی عذر تلاش کرتیں‘ یہ خیال کر لیتیں کہ اس نے ایسا نہ کیا ہو گا‘ بتانے والے کو غلط فہمی ہوئی ہو گی‘ یا اس نے اس مجبوری کے تحت ایسا کیا ہو گا‘ وغیرہ وغیرہ… تو بات وہیں تھم جاتی اور ختم ہو جاتی۔
اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالیے:
اپنے اندر لچک پیدا کیجئے اور اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کیجئے! یہ دنیا عالم فانی ہے‘ چند روزہ زندگی ہے۔ یہاں کی ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ جس نے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اصول کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے آپ کو ڈھالنا اور ہم آہنگ کرنا نہ سیکھا اس کے لیے خوشی اور مسرت کا تصور کرنا بھی محال ہے۔
زندگی میں دو اصولوں کو مد نظر رکھئے:
(۱) لچک اور عاجزی و انکساری
(۲) اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنا
سو فیصد کامیابی کی ضمانت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
شادی کے بعد آپ نے ایک نئی زندگی کا آغاز ایک نئے ماحول میں آ کر کیا ہے۔ یہاں مختلف افراد سے آپ کو واسطہ پڑ رہا ہے جن میں سے سب سے زیادہ اہم آپ کا خاوند ہے۔
ہر انسان کی مخصوص عادات و اطوار ہوتے ہیں۔ یقینا آپ کی عادات آپ کے خاوند کی عادات سے بہت یا کم …مختلف ہوں گی۔ لیکن اختلاف ضرور ہو گا۔